میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ریاض کی ”امریکہ عرب“ کانفرنس“

ریاض کی ”امریکہ عرب“ کانفرنس“

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی امریکا اور اسلامی ممالک کی کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ”باکمال خطاب“ کیا ہے جس میں انہوں نے امن کی خاطر مسلم ممالک کو اپنی نئی شراکت داری کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ایسا اتحاد بنانا چاہتے ہیں جس سے آئندہ نسلیں محفوظ رہیں، ہم جنگ نہیں چاہتے، انسانیت کی حفاظت کا حکم دینے والے دین کے نام پر دہشت گردی کی جارہی ہے، یہ جنگ مذہب، فرقوں اور تہذیبوںکے نام پر نہیں ہے، وحشی مجرم ہمیں جھکا نہیں سکتے، اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے، مسلمان دہشت گردوں کو اپنی عبادت گاہوں سے نکالیں اور دہشت گرد سوچیں وہ خدا کو کیا جواب دیں گے،میں مشرق وسطیٰ میں امن عمل شروع کرنا چاہتا ہوں، امریکا اپنا طرز زندگی دوسروں پر مسلط نہیں کرے گا، امریکی عوام کی جانب سے مسلمانوں اور مسلم ممالک کے لیے امید، محبت اور دوستی کا پیغام لایا ہوں، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کا قیام ممکن ہے، دنیا کو تاریک اور سنہرے دور میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا“ وغیرہ وغیرہ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ”لاجواب خطاب“ کے بعد ان کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والی تقریریں یاد آجاتی ہیں جن میں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کے لیے اور خصوصاً امریکا کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندیوں کی بات کی تھی اور آج وہ ریاض میں کھڑئے ہوکر ایک دوسرا ہی بھاشن دے رہے ہیں، صاف محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی باتیں ان کے دل سے نکلیں ہوں گی لیکن وائٹ ہاﺅس میں داخلے کے بعد اب وہ امریکی صہیونی صلیبی اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے ہیں جس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ کہو کچھ اور کرو کچھ۔۔۔!! جبکہ مسلم حکمرانوں کی حالت زار خواجہ آتش کے اس شعر کی مانند ہے کہ :
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
اس کے باوجود وہ” اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے “پر آمادہ نظر آتے ہیں۔کیا یہ وہی امریکا نہیں ہے جس نے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد مشرق وسطیٰ اور افغانستان کو ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، لاکھوں عراقی اور افغان مسلمانوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خاک خون میں لوٹا دیا تھا ، اسی امریکا نے اپنے مغربی حلیفوں کے ساتھ مل کرپہلے ”عرب بہار“ کے نام پر شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں عوام اور حکومتوں کو لڑاکر لاکھوں مسلمانوں کو مصر، لیبیا، شام اور یمن کی سڑکوں پر موت کا رزق بنوا دیا بعد میں لیبیا جیسے ملک پر نیٹو کی مدد سے حملے کروا کر اسے کھنڈر میں تبدیل کروادیا ۔ یہ وہی امریکا نہیں ہے جس نے ایران کو جوہری معاہدے کی ہری جھنڈی دکھاکر اسے عراق، شام اور یمن میں مداخلت کی کھلی چھٹی دی تاکہ ایرانیوں اور عربوں کے درمیان قومیت اور مسلک کی بنیاد پر نہ ختم ہونے والے فتنے کو جلا بخشی جائے اور جب آخر میں ایران اور عرب ممالک ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر نڈھال ہوجائیں اور ان کی قوت مدافعت جواب دے جائے، طویل جنگوں اور پراکسی وارکی وجہ سے ان کی معیشت کا دھڑم تختہ ہوجائے تو تمام مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کی چراگاہ بنا دیا جائے۔
کیا یہ وہی امریکا نہیں؟ جس نے ایک طرف ایران اور عرب ممالک کے درمیان نفاق کا بیج بویا تو دوسری جانب عراق اور شام کی جنگوں پر مزید تیل ڈالنے کے لیے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو کھڑا کرکے اسلام کے چہرے کو انتہاپسندی سے آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ بے پناہ عسکری طاقت کا حامل امریکا جس نے صدام حسین اور قذافی کے عشروں پر پھیلے ہوئے اقتدار کو چند دنوں میں ادھیڑ ڈالا تھا وہ اس تنظیم داعش کے سامنے اتنا بے بس کیوں ہوگیا؟ شام کے بشار الاسد کی پوزیشن تو قذافی سے بھی زیادہ کمزور تھی پھر اسے اقتدار میں جمارہنے کیوں دیا گیا ؟ تاکہ مسلمانوں کے درمیان مزید کشت خون ہوسکے۔۔۔ہاں اگر امریکا نے کہیں حقیقی جنگ لڑی ہے تو وہ افغانستان ہے جس کے نتائج آج دنیا کے سامنے ہیں کہ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی عسکری قوت کے زور پر افغان مزاحمت کو زیر کرنے میں ناکام رہے ہیں اور مختلف سازشوں کے ذریعے اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح کابل پر اس کی حمایت یافتہ انتظامیہ مسلط رہے۔ ہم پہلے بھی بار بار یہ بات باور کراچکے ہیں کہ اگر ایران یہ سمجھتا ہے کہ وہ قومیت یا مسلک کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ کا پولیس مین بن جائے گا تو یہ ناممکن ہے اور اگر عرب ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایران کو زیر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ایسا بھی نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ اصل کھیل دنیا پر دجالی عالمی صہیونیت کی بالادستی کا ہے، ایران یا عربوں کی بالادستی کا نہیں۔کیا یہ بات مسلم حکمرانوں کے لئے قابل توجہ نہیں کہ جس وقت ریاض میں ڈونلڈ ٹرمپ امن کا بھاشن دے رہے تھے تو سارے مشرق وسطیٰ میں آگ لگی ہوئی ہے لیکن اسرائیل کی صہیونی ریاست ان تمام حالات میں سکون سے ہے۔
حقیقت میں یہ عالمی صیہونی دجالیت کے قیام کے کھیل کا تیسرا فیز ہے، پہلے فیز میں نائن الیون کا بہانہ بناکر عراق اور افغانستان کو پامال کیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ چھیڑی گئی، دوسرے فیز میں اہم عرب ملکوں میں ”عرب بہار“ کے نام پر پہلے باغی حکومتوں کے تختے الٹوا کر وہاں انارکی پھیلا دی گئی اس کے بعد شام جیسے ملک پر جنگ کی آگ کا مستقل الاﺅ بھڑکا دیا گیا، اب تیسرا فیز ہے جس میں ایک طرف دفاع کے نام اسلحے کی سوداگری میں عرب ممالک کا بچاکچا سرمایہ ہڑپ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ان کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ انہوں نے عملاً خود لڑنی ہے امریکا صرف ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔۔۔ کم ازکم عالمی دجالیت کے نفاذ کے صہیونی منصوبے کے اس تیسرے فیز میں ہی مسلم حکمرانوں کو عقل آجانی چاہیے کہ ان کے ساتھ کھیل کیا کھیلا جارہا ہے، اگر اب بھی وہ خواب غفلت سے جاگنے کے لیے تیار نہیں تو سمجھ لیں کہ اس صہیونی دجالی منصوبے کا تیسرا فیز انتہائی خونریز اور وحشت ناک ہوسکتا ہے۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں