چیئرمین اینٹی کرپشن ملازمین پر مہربان وزیر اعلیٰ سے خلاف قانون الائونس دلانے کی کوششیں
شیئر کریں
بنیادی تنخواہ جتنا الائونس ہر ماہ تنخواہ کے ساتھ دینے کی سفارش،وزیر اعلیٰ کی جانب سے مستردکیے جانے پر دوبارہ سمری ارسال
دوسری سمری پر چیف سیکرٹری برہم، قانون کی رو سے وزیراعلیٰ ایک سمری مسترد کریں تو اس موضوع پر دوبارہ سمری نہیں بھیجی جاسکتی
الیاس احمد
محکمہ اینٹی کرپشن کو ویسے بھی آنٹی کرپشن کہا جاتا ہے اور کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو محکمہ اینٹی کرپشن پر چیک اینڈ بیلنس رکھے لہٰذامحکمہ اینٹی کرپشن مطلق العنان بنا ہوا ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محکمہ اینٹی کرپشن میں ایک خصوصی سیل بنایا جاتا جو اپنے محکمہ کے کرپٹ ملازمین پر نظر رکھتا ،ان کی نگرانی کرتا اور غلط کام کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کرتا۔ لیکن یہاں الٹا پہیہ چلتا ہے وہ یہ کہ محکمہ اینٹی کرپشن کو ہمیشہ حکمرانوں نے اپنے مخالفین کے لئے استعمال کیا، نتیجے میںیہ محکمہ اب تک عوام میں ساکھ بھی نہیں بناسکا ہے کیونکہ جو آتا ہے وہ اوپر کے احکامات پر من وعن عمل کرتا ہے اور پھر وہ اپنا اور ماتحت ملازمین کا پیٹ بھرکر چلاتا ہے۔ اس سے بڑی ماتم والی کیا بات ہوگی کہ غلام حیدر جمالی اور غلام قادر تھیبو جیسے لوگ محکمہ اینٹی کرپشن کے چیئرمین رہے‘ یوں بلی کو دودھ کی رکھوالی پر بٹھادیا گیا۔ نیب میں اس وقت اربوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں کا ریفرنس غلام حیدر جمالی پر چل رہا ہے وہ بھلا کس طرح کرپشن کنٹرول کرتا کیونکہ گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کرے گا تو بھوکا ہی مرے گا۔ اب وہی حال غلام قادر تھیبو کا ہے انہوں نے محکمہ اینٹی کرپشن میں پولیس افسران کو لاکر بھردیا ہے ،خیر سے یہ وہ پولیس افسران ہیں جو انور مجید کے منظور نظر ہیں ،ان کا کرپشن کے خاتمے سے بھلا کیا تعلق ؟ وہ تو اوپرسے آنے والے حکم پر عمل کریں گے اور محکمہ اینٹی کرپشن میں ڈیپوٹیشن پر جو پولیس افسر آئے تھے وہ بھی ’’اوپر‘‘ حساب کتاب دے کر تین سالہ مدت مکمل کرنے کے باوجود محکمہ اینٹی کرپشن میں موج مستی کررہے ہیں۔ اب حال ہی میں محکمہ اینٹی کرپشن کے چیئرمین نے حیرت انگیز سمری وزیراعلیٰ کو بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن میں ملازمین دن رات محنت کرکے تھک چکے ہیں، ان کی تنخواہ میں ان کا گھر نہیں چلتا ،بے چارے اچھے اور شریف ملازمین ہیں ،کرپشن سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کے گھر کا چولہا جلانے کے لئے ان کو بنیادی تنخواہ جتنا الائونس ہر ماہ تنخواہ کے ساتھ دیا جائے تاکہ وہ مزید محنت اور جانفشانی سے کام کرسکیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نے سمری پڑھی تو ہنس پڑے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازمین ہوں اور محنتی‘ ایماندار ہوں یہ تو ناممکن بات ہے، انہوں نے اس سمری کو مسترد کردیا ہے۔ جیسے ہی چیئرمین اینٹی کرپشن کو پتہ چلا وہ سمری تھامے اسی دن وزیراعلیٰ کے پاس جاپہنچے اوراپیل کی کہ جناب ایسا نہ کریں۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے دن رات ایک کرکے صوبے سے کرپشن ختم کردی ہے۔ ملازمین نے اس صوبے کو کرپشن سے پاک کرنے کی ٹھان لی ہے ان کے اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ایک تنخواہ کے ساتھ ساتھ بنیادی تنخواہ کے برابر ایک خصوصی الائونس دیا جائے۔ وزیراعلیٰ اس دہائی کو سنتے رہے اور پھر کہا کہ اچھا دوبارہ سمری بھیجی جائے ۔چیئرمین اینٹی کرپشن نے اس ملاقات کو ایک اجلاس کا رنگ دے دیا اور فوری طور پراسکے منٹس بنائے اور تمام سرکاری اداروں کو بھیج بھی دیئے اور ساتھ ساتھ دوسری سمری بناکر وزیراعلیٰ سندھ کو بھیج دی۔ محکمہ خزانہ کے افسران کو بھی منالیا لیکن جب سمری چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن کے پاس پہنچی تو ان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں، انہوں نے سمری وزیراعلیٰ کو ارسال نہیں کی بلکہ سیکریٹری خزانہ سندھ حسن نقوی کو سخت نوٹ کے ساتھ واپس کی کہ سمجھ نہیں آتا آخر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ وزیراعلیٰ نے ایک سمری مسترد کردی ہے تو دوسری سمری کیوں بھیجی گئی ہے؟ اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟ اور اس سمری پر سیکریٹری خزانہ اپنا موقف تحریری طورپر بھیج دیں تاکہ اس کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ سمری وزیراعلیٰ کو بھیجنی ہے یا نہیں؟ کیونکہ قانون یہی کہتا ہے کہ وزیراعلیٰ کسی ایک موضوع پر سمری مسترد کریں تو اس موضوع پر دوبارہ سمری نہیں بھیجی جاسکتی، یہاں اس موضوع پر دوبارہ سمری بھیجنے کے لئے وزیراعلیٰ دوبارہ احکامات دے سکتے ہیں لیکن کوئی محکمہ خود سے وہی سمری دوبارہ نہیں بھیج سکتا اب محکمہ خزانہ تو پریشان ہے اور وہ اس سمری کو دوبارہ وزیراعلیٰ کے پاس بھیجنے پر تیار نہیں ہے لیکن چیئرمین محکمہ اینٹی کرپشن غلام قادر تھیبو دن رات ایک کرکے اس سمری کو منظور کروانا چاہتے ہیں اور یہ معاملہ اب طویل بحث میں الجھ گیا ہے۔