چیف جسٹس نے آرڈر جاری نہیں کیا تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟ جسٹس جمال مندوخیل
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟۔ بدھ کو پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔سماعت کے آغاز پر پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست میں فریق بننے کی درخواست دائر کردی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، آپ کی درخواست پی ڈی ایم کی طرف سے ہے؟، اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے الیکشن کمیشن کے وکیل کو سنیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن آرڈر کے بغیر کیسے عمل کررہا ہے، 4 ججز میں سے 2 میرے بھی سینئر ہیں، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ چلیں آپ کی وضاحت آگئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے ابھی بات کرنی ہے’ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے، جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بینچ میں بیٹھنے چاہئیں، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فل کورٹ وقت کی ضرورت ہے، پہلے طے کرلیں کہ فیصلہ 4/ 3 کا تھا یا 3/2 کا تھا، ساری قوم ابہام میں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟’، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ‘میں اپنی گذارشات پیش کروں گا، الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا، صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی۔سجیل سواتی نے کہا کہ تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں، آرٹیکل 218 کی ذمہ داری کسی بھی قانون سے بڑھ کر ہے، انتخابات کیلئے سازگار ماحول کا بھی آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 224 کیتحت الیکشن 90 روز میں ہونے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اچھی تیاری کی ہے۔دوران سماعت پیپلزپارٹی کے وکیل نے کہا کہ ہم نے فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہم الیکشن کمیشن کو سن کر پھر فیصلہ کریں گے۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت مجھے بھی سنے۔نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ روز کے ریمارکس پر وضاحت کرنی ہے، میں نے جو مختصر اور تفصیلی فیصلہ دیا اس پر قائم ہوں، از خود نوٹس لینے کا اختیار کس کا ہے یہ اندرونی معاملہ ہے، آرڈر آف دی کورٹ 4 ججز پر مشتمل فیصلہ تھا، آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس نے جاری نہیں کیا، سوال یہ بھی ہے کہ جب چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلہ نہیں دیا تو پھر الیکشن کمیشن اور صدر نے مشاور کے بعد شیڈول جاری کیا۔اس دوران فاروق ایچ نائیک نے دوبارہ استدعا کی کہ ‘جسٹس جمال خان کے ریمارکس پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ فیصلہ 4 ججوں کا ہے یا 3 کا؟ پوری قوم اس وقت کنفیوڑن کا شکار ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘آپ تحریری طور پر درخواست دے دیں۔سجیل سواتی نے کہا کہ عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے،3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلہ کے پیراگراف 14 اور ابتدا کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے مختصر حکم نامہ دیکھا تھا؟، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ‘ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے؟، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ اسی بات کو دیکھ کر عدالتی حکم پر عمل کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، یہ اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کھلی عدالت میں 5 ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے رہ دستخط کیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جو معاملہ ہمارے چیمبرز کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ‘تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا کیا موقف ہے، سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ‘4/3 کے فیصلے پر الیکشن کمیشن سے ہدایات نہیں لیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا، قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے۔سجیل سواتی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے کوششیں کیں، الیکشن کمیشن نے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کی تاریخیں تجویز کیں، 3 مارچ کو عدالتی فیصلہ موصول ہوا، الیکشن کمیشن نے اپنی سمجھ سے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا، الیکشن کمیشن نے ووٹ کے حق اور شہریوں کی سکیورٹی کو بھی دیکھنا ہے، صدر کی طرف سے تاریخ ملنے پر شیڈول جاری کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے 22 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، 22 مارچ کا آرڈر کب جاری کیا، اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ ‘آرڈر 22 مارچ شام کو جاری کیا، جب آرڈر جاری کیا تو کاغذات نامزدگیاں موصول ہو چکی تھیں، آرڈر جاری ہونے تک شیڈول کے چند مراحل مکمل ہو چکے تھے۔سجیل سواتی نے کہا کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، آئین کا آرٹیکل 17 پرامن انتخابات کی بات کرتا ہے، آئین کے مطابق انتخابات صاف شفاف پرامن سازگار ماحول میں ہوں، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے۔سجیل سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں، عدالت کہے گی تو خفیہ رپورٹس بھی دکھا دیں گے، رپورٹس میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی سندھو دیش مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، الیکشن کے لیے 4 لاکھ 12 ہزار کی نفری مانگی گئی، 2 لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔جسٹس منیب نے ریمارکس دہے کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کے علاؤہ بہت سارے سوالات ہیں، جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں، آپ دلائل دیں پھر سوالوں کے جواب دیں۔سجیل سواتی نے کہا کہ پس منظر کے طور پر ان رپورٹس کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا، اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعد انتخابات کے حوالے سے میٹنگ ہوئی، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں۔ امن و امان کی خراب صورتحال کا ذکر کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 20 ارب کا ذکر ہے لیکن گزشتہ روز عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا، سجیل سواتی نے کہا کہ5 ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ بیس ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہو گا، پنجاب کیلئے 2لاکھ 97 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کا بتایا گیا۔جسٹس جمال خان نے استفسارا کیا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے’ سجیل سواتی نے کہا کہ ‘وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو بیس ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔سجیل سواتی نے کہا کہ سپیشل سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ سیاسی شخصیات کو سیکورٹی خطرات ہیں، وزارت داخلہ کے مطابق سیکورٹی خطرات صرف الیکشن کے روز نہیں الیکشن مہم کے دوران بھی ہوں گے، وزارت داخلہ نے عمران خان پر حملے کا بھی حوالہ دیا، کمیشن کو بتایا گیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیر الیکشن کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہو گا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں۔سجیل سواتی نے کہا کہ خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، 2023 میں سکیورٹی کے 443 تھریٹس کے پی کے میں موصول ہوئے، خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشگردی کے 80 واقعات ہوئے، 170 شہادتیں ہوئیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے، رپورٹس کے مطابق عوام میں عدم سکیورٹی کا تاثر بھی زیادہ ہے، خیبرپختونخوا کے 80 فیصد علاقوں سکیورٹی خطرات زیادہ ہیں، کے پی میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹس دیں کہ افغانستان سے دہشت گرد داخل ہوچکے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ باتیں بہت اہم ہیں، کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟’ اس پر الیکشن کمینش کے وکیل نے جواب دیا کہ ‘تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا۔