میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی میں مافیا کے55 گروپوں کے ڈھائی لاکھ گداگر سرگرم

کراچی میں مافیا کے55 گروپوں کے ڈھائی لاکھ گداگر سرگرم

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۹ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

آصف سعود

سجاد کھوکھر

 

 

٭گداگر مافیا صرف کراچی سے ایک ماہ میں 12کروڑ روپے بھیک جمع کرلیتی ہے،مجرمانہ انداز سے متحرک گداگر مافیا کو جرائم پیشہ افراد کے علاوہ پولیس کی بھی سرپرستی حاصل

٭کراچی میں سرگرم ڈھائی لاکھ سے زائد گداگر وں میں ایک لاکھ تیس ہزار مقامی نکلے، رمضان میں اندرون سندھ و جنوبی پنجاب سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ تاحال جاری

٭ حضور بخش جتوئی اور ابوالکلام بنگالی کا شمار کراچی کے بڑے ٹھیکداروں میں ہوتا ہے جن کے ماتحت ہزاروں گداگر سرگرم ہیں،گداگروں کو روزانہ کی بنیاد پر صرف اُجرت دی جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کی کسی بھی شاہراہ کے کسی بھی چوک یا اسٹاپ پر رکیں تو گداگر ایک ہجوم کی طرح یلغار کرتے ہیں، ان کے پاس آپ کو دہلا دینے والے فقرے اور پگھلا دینے والی دعائیں اور لرزا دینے والی بددعائیں ہوتی ہیں۔ مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ کمزور عقیدے سے کھیلنے والے اور انسانی آرزؤں کی نفسیاتی سطح سے کھلواڑ کرنے والے یہ گداگر دراصل ایک پیشہ ور مافیا ہے۔ جنہیں انتہائی مجرمانہ طور پر ایک منظم مافیا نیٹ ورک کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ جرأت کی تحقیقات کے مطابق گداگر مافیا صرف کراچی میں ایک ماہ میں 12کروڑ روپے بھیک سے جمع کرلیتی ہے۔
جرأت کی تحقیقات کے مطابق کراچی میں ماہِ رمضان کے موقع پر گداگر مافیا کے55 گروپ سرگرم ہیں جن کو جرائم پیشہ افراد کے علاوہ پولیس کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔ شہر میں اس وقت ڈھائی لاکھ سے زائد گداگر سرگرم ہیں جن میں سے ایک لاکھ تیس ہزار مقامی گداگر ہیں۔ تفصیلات کے مطابق شہرِ قائد میں گداگروں کے بڑے ٹھیکیداروں کا انکشاف ہوا ہے۔ حضور بخش جتوئی اور ابوالکلام بنگالی کا شمار کراچی کے بڑے ٹھیکیداروں میں ہوتا ہے جن کے ماتحت ہزاروں گداگر سرگرم ہیں۔ واضح رہے کہ ان گداگروں کو چلانے کے لیے یونین کونسل یا پھر تھانہ کی سطح پر بھکاریوں کا ایک ہیڈ گداگر ہوتا ہے جسے چھوٹا ٹھیکیدار بھی کہا جاتا ہے جس کے ذمہ ماتحت گداگروں کو اجتماعی طور پر کچی آبادیوں میں ٹھہرانا اور تھانہ جات کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے جبکہ بڑے ٹھیکیدار ہر اتوار کی شب اپنے ماتحت ٹھیکیداروں سے مخصوص کردہ مقامات پر ویگو گاڑیوں میں آ کر بھیک شدہ رقوم لے کر چلے جاتے ہیں۔ گداگروں کے مضبوط نیٹ ورک صدر تاج کمپلیکس، طارق روڈ، بہادر آباد،گلشن اقبال، گلشن حدید، سہراب گوٹھ،قائد آباد، ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، کیماڑی،کلفٹن، نیلم کالونی،تین تلوار، ہجرت کالونی، کالا پل،قیوم آباد،سمیت بیشتر ایریا ہیں جہاں سے گداگر بیٹ کا نیٹ ورک چلایا جاتا ہے۔

ذرائع سے انکشاف ہوا ہے کہ ہفتہ وار شہر قائد میں گداگروں کے بڑے ٹھیکدار ضلعی سطح پر ایک کروڑ سے زائد کی رقوم حاصل کرتے ہیں، بیشتر گداگروں کے محلات بھی بتائے گئے ہیں جنہوں نے محلات کے مالک بننے کے بعد گداگری پیشہ ترک کر دیا ہے۔ ایسے درجنوں گداگر موجود ہیں جو گداگری کے پیشے سے ٹرانسپورٹرز بن چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ماہ رمضان سے دو روز قبل اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب سے آنے والے گداگروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے جن کی توجہ کا کا مرکز شاہراہیں، مزارات، بازار، جامع مساجد، ٹرانسپورٹ ٹریمنلز، ریلوے اسٹیشن، رہائشی علاقے ہوتے ہیں۔گداگروں کے طے شدہ طریقے کے مطابق ایک بھکاری دوسرے بھکاری کی حدود میں گداگری نہیں کر سکتا۔عموماً ایک گداگر روزانہ کی بنیاد پر کم از کم دس ہزار کما لیتا ہے جبکہ اگر مقام طارق روڈ یا گلف مارکیٹ جیسا ہو تو بیس ہزار کمانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ گداگروں کو روزانہ کی بنیاد پر صرف اُجرت دی جاتی ہے جو ان سے طے شدہ ہوتی ہے۔ باقی رقوم علاقائی ٹھیکیدار کے پاس جمع کروانی پڑتی ہے۔ پیسوں کے ہیر پھیر میں ملوث بھکاری کی ایک تو نوکری جاتی رہتی ہے دوسرا اُسے سزا بھی دی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابوالکلام بنگالی جیسے کراچی میں ایک درجن کے قریب ٹھیکیدار موجود ہیں جو شہر قائد سے ہفتہ وار کروڑوں روپے اکٹھے کرتے ہیں۔ ایسے پروفیشنل گداگروں پر علاقہ پولیس کا بھی دست ِشفقت ہوتا ہے جس میں سرفہرست تھانہ پریڈی ہے جس کی حدود میں ایک ہزار سے زائد گداگر بھیک مانگنے میں سرگرم ہیں اور اُنہیں علاقہ پولیس کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ اب تو شہر کراچی کی تفریح گاہیں بھی گداگروں کے شر سے محفوظ نہیں رہیں۔ مثلاً فیملیز پارک میں بھی صبح کے اوقات میں گداگر اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ گداگروں نے بھیک مانگنے کے طریقے بھی نہایت دلچسپ اختیار کر رکھے ہیں۔ کچھہ گدا گر طریقہئ گداگری تبدیل کر کے ہاتھوں میں بیلچہ اور رنگ ساز سامان اٹھائے گداگری کرتے نظر آتے ہیں، کچھ مسافر کا روپ دھار کر اپنی رقم گرنے کا ڈھونگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ایک مستقل طریقہ بچوں کو ساتھ رکھتے ہوئے بھیک مانگنے کا بھی اختیار کیا جاتا ہے، جن کے باعث ہمدردی کا عنصر جلدی اور زیادہ کام کرتا ہے، اس طریقے میں عورتیں جلدی بھکاریوں سے ہمدردی کرتے ہوئے بھیک دینے میں عجلت دکھاتی ہیں۔ کچھ بھکاری براہ راست پیسے مانگنے کے بجائے گھر کی کسی خاص ضرورت کاتذکرہ کرنے اور اُسی چیز کا تقاضا کرتے ہیں، جسے سن کر کچھ لوگ اُسے بھکاری سمجھنے کے بجائے واقعی ضرورت مند سمجھتے ہیں اور بدلے میں فوری بھیک دے کر اپنی ضرورت پوری کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ یہ اور ایسے کئی مختلف طریقے بھیک مانگنے کے حوالے سے مستقلاً اختیار کیے جاتے ہیں، مگر اس کے خلاف کسی بھی سطح پر کوئی ردِ عمل نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ جن اداروں کے ذمے ایسی پیشہ ور سفاک مافیا کو ختم کرنا ہے، وہ ادارے صرف تنخواہیں لینے تک محدود ہو چکے ہیں۔
کراچی کے شہریوں کے لیے ان جعل ساز گداگروں سے چھٹکارا پانا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ کینٹ اسٹیشن کے اطراف میں غیر مسلم شہری جنہیں بھاگڑی بھی کہا جاتا ہے، اکثر مرد و خواتین گداگری اور دھوکا دہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی تو خواتین بھی اکثر اوقات نشے میں دھت نظر آتی ہیں۔یہ سارے تماشے کھلے بندوں کراچی میں جاری رہتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ قانون کی کوئی رٹ کہیں پر بھی نظر نہیں آتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں گداگر مافیا مارکیٹوں، سگنلز، مساجد سمیت دیگر چھوٹے بڑے مراکز سے صرف ایک ماہ میں دس سے بارہ کروڑ روپے جمع کرتا ہے، شہر میں یہ مافیا ٹرک میں صبح سویرے چھوٹے بچوں اور خواتین کو سگنلز اور مارکیٹوں میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اندرون سندھ اور پنجاب سے بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کا رُخ کرتی ہے، پولیس ذرائع بتاتے ہیں کہ صرف رمضان کے مہینے میں بھکاری اس مہم سے کروڑوں روپے اضافی جمع کرتے ہیں، کراچی کے کچھ شہری عدم واقفیت کے باعث زکوۃ اور فطرے کی رقم بھی ان گداگروں کو دے دیتے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق کراچی میں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں سے گداگروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث مقامی مانگنے والوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے گداگروں میں جرائم پیشہ افراد بھی آتے ہیں اور رمضان کے دوران جرائم کی شرح 60 فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے۔ شہر میں پہلے ہی گھروں میں ڈکیٹیاں، اسٹریٹ کرائمز بہت زیادہ ہیں جبکہ سیکیورٹی خدشات بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد مقامی گداگر موجود ہیں اور تین لاکھ گداگر ہر سال رمضان سے قبل دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔

سندھ حکومت کا ہر ادارہ ویسے تو کراچی میں گداگروں کے خلاف ہر سال کریک ڈاؤن کا اعلان کرتا ہے لیکن عملی طور پر گداگر مافیا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ کراچی آپریشن کے دوران بعض وفاقی تحقیقاتی اداروں نے رپورٹس بھیجی تھیں کہ کراچی کی کچی اور مضافاتی علاقوں کے علاوہ ساحلی آبادیوں میں قائم گداگروں کی آبادیوں میں رہنے والوں کا کوئی ریکارڈ مقامی پولیس کے پاس نہیں ہے اور ان میں اکثریت نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔گزشتہ سال جب شہری بڑی تعداد میں آنے والے گداگروں سے تنگ آ کر سوشل میڈیا پر خبریں چلانے لگے تو نمائشی آپریشن کر کے چند گداگروں کو پکڑ کر ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا گیا اور رمضان کا مہینہ گزر گیا۔ اس بار صورت حال زیادہ خراب ہے، کیونکہ کراچی میں سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں اور کراچی میں مقیم گداگروں کی اب تک تعداد بھی 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، ایئرپورٹ کے اطراف، ریلوے اسٹیشن، تجارتی مراکز، بس اڈوں، سڑک کنارے، چوراہوں، گلی کوچوں میں گداگروں کی بڑی تعداد نظر آنا شروع ہوگئی ہے جن میں مرد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔کراچی پولیس گداگروں کی آبادیوں کے مکینوں کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکی ہے اور ہر سال کی طرح اس بار بھی گداگروں کے خلاف کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ شہر میں گداگروں کی دوسرے شہروں سے آمد کا سلسلہ تیز ہوچکا ہے۔ دیگر شہروں سے ٹرینوں، بسوں، گاڑیوں میں بڑی تعداد کراچی کا رُخ کررہی ہے۔ کراچی پولیس کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس بار سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے شہروں سے سیلاب متاثرین بھی گداگروں کے روپ میں کراچی کا رُخ کریں گے۔ رمضان میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے اطراف بڑی تعداد گداگروں کی نظر آئے گی۔ اس طرح اصل ضرورت مند متاثر ہوں گے۔ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس سال گداگر مافیا کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے، گداگر مافیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سزا معمولی ہونے کے باعث پیشہ ور بھکاری رہائی حاصل کرلیتے ہیں جن کے پیچھے ایک مضبوط اور منظم مافیا موجود ہوتا ہے، پولیس نے ایسے کرداروں کی کمر توڑنے کیلئے اینٹی بیگری یونٹ کو فعال کردیا ہے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ اینٹی بیگری یونٹ کی نفری تجارتی مراکز میں بڑھا دی گئی ہے تاکہ پیشہ ور گداگروں کے منظم گروہ کو گرفتار کیا جاسکے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکے۔

٭٭٭


ماہ رمضان سے دو روز قبل اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب سے آنے والے گداگروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے جن کی توجہ کا کا مرکز شاہراہیں، مزارات، بازار، جامع مساجد، ٹرانسپورٹ ٹریمنلز، ریلوے اسٹیشن، رہائشی علاقے ہوتے ہیں۔گداگروں کے طے شدہ طریقے کے مطابق ایک بھکاری دوسرے بھکاری کی حدود میں گداگری نہیں کر سکتا۔عموماً ایک گداگر روزانہ کی بنیاد پر کم از کم دس ہزار کما لیتا ہے۔
جبکہ اگر مقام طارق روڈ یا گلف مارکیٹ جیسا ہو تو بیس ہزار کمانا کوئی مشکل نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں