اوتزی کا قاتل کون ؟محققین3300قبل مسیح ہونے والے قتل کی کھوج میں مصروف
شیئر کریں
محمد عدیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کے آخری دن ہیں۔اٹلی کے پہاڑی سلسلے کوہ الپس پر ہارن بیم کے زرد پھولوں کا سلسلہ وادی تک پھیلاہواہے ۔وادی کے اندر پھیلے ہوئے جنگلات میں ایک شخص بڑی تیزی سے باہر نکلتا ہے ۔اسکا ایک ہاتھ زخمی ہے جسے وہ دوسرے ہاتھ سے تھامے کراہتا اور لڑکھڑاتا چلاجارہا ہے ۔دفعتاًاسکی نظر ایک کھوکھلی چٹان پر پڑی تو وہ اس چٹان پر جا بیٹھا اور پھر اسی کا ہو رہااور اسی پر پڑے اسکو صدیاں پھر ہزاروں سال بیتے اور بالآخر یہ شحص کوہ الپس کی اس وادی سے منجمدبے جان جسم کی صورت برآمد ہوا۔ یہ نیو لتھک انسان جس کو ہم آئس مین یا برفانی آدمی کے طور پر جانتے ہیں۔اب اسکا یہ بدن بھی بس اتفاقیہ ہی اس وقت دریافت ہوگیا جب 1991میں دو جرمن سیاح سیر سپاٹا کرتے ہوئے آسٹریا سے ملحق اطالوی سرحدی علاقے میں واقع پہاڑی سلسلے "اوٹزٹل الپس” میں جانکلے اور انہیں یہ انسانی بدن ایک کھوکھلی چٹان میں ملااور انہوں نے اس کے بارے میں متعلقہ سائنسدانوں کو مطلع کیا۔جنہوں نے نہایت حساس سائنسی آلات کو استعمال میں لاتے ہوئے بڑی باریک بینی سے اس لاش کا معائنہ شروع کردیا۔بعد ازاں اس نیولتھک انسان کو اوتزی کا نام دیاگیا۔ بعد میں ہونے والی مزید تحقیقات کے مطابق اوتزی انسانی برادری کا بھی ایک قدیم ترین فرد نکلا۔اسکے بدن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مضبوط پٹھوں والا طاقتور ، توانا اور نسبتاً قدوقامت والا انسان تھا۔موت کے وقت وہ تین قسم کے کپڑوں میں ملبوس تھا اور اسکے پاؤں میں ریچھ کی کھال کے جوتے تھے۔ وہ مسلح تھا اس کے پاس ایک تیز دھار والا خنجر اور آگ جلانے کے ضروری لوازمات سمیت دیگر سامان بھی موجودہ تھا۔ اس کے بازو سے لٹکے ،ہرن کی کھال سے بنے ترکش میں موجود تیروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدھے سے زیادہ تیز چلائے جا چکے تھے ۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے سے سفر پر تھااور راستے میں اپنے لیے شکار کرتا ہوا جارہاتھا۔اس کے پاس سے صنوبر کی لکڑی کا ایک ٹکڑا ملاجسے کوئی خاص شکل دینے کی کوشش کی گئی تھی اور اسی طرح ایک غیر مکمل شدہ کمان ملی۔
اوتزی کے متعلق ابھی بڑے سوال زیربحث ہیں اور سائنسدانوں کے کئی نظریات بھی ہیں۔کچھ سال قبل اوتزی کو سائنسدانوں نے غلط اندازہ قائم کرتے ہوے ایک گڈریا ،بعد ازاں ایک کاہن بھی کہا۔ایک انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ اوتزی کو اس زمانے کے رواج کے مطابق بھینٹ چڑھایا گیا تاہم یہ تمام نظریات وقت کے ساتھ غلط ثابت ہو گئے۔بلکہ اس کے بارے میں صحیح طور پر محققین ابھی تک جان نہیں پائے کہ اوتزی آخر تھا کون؟ لیکن بہرحال وہ ابھی تک اس امر پر متفق ہیں کہ اسے قتل کیا گیا اور وہ اس حملے کے فوری بعد عین اسی جگہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا جہاں سے اسکا ڈھانچہ ملا۔
اوتزی کا ڈھانچہ اٹلی کے ایک شہر بولزینو میں ٹائیرول نامی میوزیم میں ایک انتہائی درجے کے سرد چیمبر میں 1998 سے محفوظ ہے ۔یہ ڈھانچہ اپنی دریافت کے بعد سے ہی ماہرین بشریات کا مرکز بنا ہواہے ۔تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ برفانی آدمی غالباً اٹلی کے شمال میں واقع وادی "ویلے اسارکو” میں پل کر جوان ہوا۔جب کہ ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق اوتزی کی ہڈیوں میں شامل اجزاء اٹلی کے جنوب میں واقع وادیوں "ویل وینوستا” اور "ویل سینالز” کے پانی اور مٹی سے میل کھاتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق اوتزی نے اپنے سفر کا آغاز اٹلی کے اس مقام سے کیا جہاں دور حاضر میں دریائے ایج اور دریائے سینالز کا سنگم ہے ۔یہ بھی انکشاف ہوا کہ موت کے وقت برفانی آدمی کی صحت خراب تھی۔ اس کی باقیات سے ملنے والے اکلوتے ناخن کے تجزیے سے پتہ چلا کہ وہ اپنی موت سے تقریباً چھ ماہ پہلے متواتر دو بیماریوں کا شکار تھااورتیسری بیماری اسے موت کے دوماہ پہلے لاحق ہوئی تھی۔ اس کے جسم کے اندرونی حصوں میں "وپ وورم” نامی ایک کیڑے کے انڈے پائے گئے جوکہ معدہ کی بیماری کی علامات ہیں تاہم بیماری اتنی شدید بھی نہیں تھی کہ وہ کھانے پینے سے محروم ہو جاتا۔
2002 میں اٹلی کی یونیورسٹی آف کیمرینو سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے برفانی آدمی کے جسم سے دریافت شدہ خوراک کے اجزاء کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا کہ اس نے موت سے ایک دو روز قبل جنگلی بکرے کا گوشت اور کچھ نباتاتی اجزاء کھائے تھے ۔جبکہ ایک اور تحقیق کے مطابق برفانی آدمی کی آخری غذا سرخ ہرن کا گوشت اور اناج تھا۔حیاتیاتی آثار کے ماہر کلاؤس اویگل اوتزی کی خوراک کے بابت بتاتے ہیں کہ وہ گندم سے ملتا جلتا کوئی اناج رغبت سے کھاتا تھاجبکہ اس کے لباس پر جو کے جز بھی پائے گئے۔ برفانی آدمی پر ہونے والی تحقیقات سے حاصل شدہ شواہد کو یکجا کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ اس نے اپنے آخری سفر کا آغاز بہار کے موسم میں کیا تھا ۔اور سفر کا آغاز جنوب میں واقع گھنے جنگل سے کیا۔اس وقت”ہوپ ہارن بیم”نامی درخت اپنے مخصوص پھولوں کے گچھوں سے لدے ہوئے تھے ۔وہ اگرچہ پہاڑوں سے بھی گزرا مگر اس کا سفر صرف کوہ ساروں تک ہی محدود نہیں تھا۔وہ اس وادی میں موجود پہاڑوں میں لگے انناس کے درختوں کے ساتھ بھی ہو کر گزراجسکا امکان اسکے لباس پر پائے گئے انناس کے پتوں کے اجزاء سے کیاگیا ۔اور وہ انناس کے اس جنگل میں کافی دن محو سفر رہا، جہاں ایک روز اس کو موت نے آلیا۔ایک سوال بڑا پیچیدہ ہے کہ اس نے سیدھا راستہ اپنانے کے بجائے پیچیدہ ، کٹھن اور آڑھی ترچھی راہوں کا انتحاب کیوں کیا؟ اسکا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دریافت شدہ شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب وہ پہاڑی سلسلے سے سفر کرتا ہوا Tisenjochنامی گھاٹی پر پہنچا تو اس پر شدید تھکن طاری ہو چکی تھی۔ لہٰذااس نے یہاں کچھ دیر آرام کا سوچا۔اس وقت وہ پہاڑ پر 6500فٹ کی بلندی سر کر چکا تھا۔اسکا رخ شمال کی جانب، گلیشیر اور دریا والے ایک وسیع بیابان کی طرف تھا۔ اس نے آرام اور تندوتیز اور پہاڑی ہواسے بچنے کیلئے ایک کھوکھلی چٹان میں پناہ لی۔جوکہ پانچ ہزار سال کیلئے اسکی قبر بن گئی۔ محققین اس بارے میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ اوتزی کے دشمن پیچھا کرتے ہوئے اس تک پہنچے یا وہ پہلے سے ہی اس کی گھات میں موجود تھے ۔بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اسے اس کھوکھلی پناہ گاہ سے دوبارہ نکلنا نصیب نہیں ہوا۔
جدید تحقیق سے ثابت ہواکہ برفانی آدمی کو موت کے گھاٹ اتارنے والے شخص نے اس پر پیچھے اور بلندی سے حملہ کیاتھا۔محققین کے مطابق برفانی آدمی کو لگنے والا تیر اس کی کھال پھاڑ کے اس کی ہڈی کو توڑتا ہوا سیدھا نس میں پیوست ہوگیا۔نس سے خون بہنے لگا اوربرفانی آدمی کے آخری لمحات خون کو روکنے کی تگ ودومیں گزرے ۔اسکا دل زورزور سے دھڑکنے لگا اور سرد پہاڑی مقام پر شدید خنکی کے باوجود وہ پسینے سے تر بتر ہو گیا۔بالآخر خون کے متواتر اور تیزی سے اخراج اور آکسیجن کی کمی کے باعث ،چند منٹ تک موت سے لڑنے کے بعد، وہ زندگی کی بازی ہارگیا۔بعد ازاں "اوٹزل الپس”کا رگوں میں خون جماتے سرد موسم اور برف باری نے اسکے مردہ جسم کو ہزاروں سال کیلئے محفوظ کردیا۔
اسے کس نے کیوں اور کیسے قتل کیا! کیا وہ نیو لتھک دور میں ہونے والی راہزنی کی واردات میں ماراگیا؟ یا ایسے فرد یا افراد کے ہاتھوں اپنی جان سے گیا جو اسے اچھی طرح جانتا تھا؟ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صاف صاف جرم کی واردات ہے جس کی وجوہات پر تاحال اسرار کے پردے پڑے ہیں۔برفانی آدمی کی موت کا باعث بننے والا تیر اس جگہ تلاش کے باوجود نہیں مل سکاجہاں سے برفانی آدمی کا ڈھانچہ دریافت ہواتھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تیر کسی نے غائب کردیا۔ایڈورڈایگارٹر کہتے ہیں” مجھے یقین ہے کہ جس شحص نے برفانی آدمی کو قتل کیا اسی نے آلہ قتل غائب کردیا۔”اور اس نے ایسا اس لیے کیا تاکہ قاتل کی شناخت نہ کی جاسکے ایڈورڈ اور ان کے ساتھی محققین برفانی آدمی کے قتل کو راہزنی واردات ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے ڈھانچے کے پاس سے اشیاء خاص طور پر اس دور کے لحاظ سے قیمتی اشیاء تانبے کے پھل والی کلہاڑی کا پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ برفانی آدمی یا اوتزی کو لوٹنے کیلئے قتل نہیں کیا گیا۔یہاں اس کے بارے ایک متنازع تحقیق سامنے ضرور آئی ہے کہ وہ دوبہ دو لڑائی اور ہاتھا پائی کے دوران ماراگیا۔اس دعوے کی دلیل دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ اوتزی کے لباس پر پائے جانے والے خون کے دھبے صرف ایک آدمی ہی کے نہیں بلکہ کم ازکم چار آدمیوں کے ہیں۔لیکن اسکے باوجود محققین کی بڑی تعداد اوتزی پر ایک سے زیادہ افراد کے حملے کا نظریہ مسترد کر چکی ہے ۔
اوتزی کے بارے میں ابھی مزید تحقیق، انکشافات اورنت نئی موشگافیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور برسوں سر کھپانے کے باوجود اوتزی کی زندگی اور المناک موت محققین کیلئے ایک چیستاں اور اسرار بنی ہوئی ہے وہ جس تنہائی میں لقمۂ اجل بنا ایسے میں ا وتزی کی چیخیں اور کراہیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ہونگیں،مگر آج پانچ ہزار سال بعد اس کا بے جان جسم مختلف علامتوں اور نشانیوں کے ساتھ اپنے قتل کی داستان جستہ جستہ اور رفتہ رفتہ سنا رہاہے ۔
٭٭٭
” width=”20″ height=”20″>