روپے کی تاریخی بے قدری، کم شرح نمو، ہوش ربا مہنگائی کا خطرہ
شیئر کریں
پاکستان کی کرنسی نے گزشتہ دو دنوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا 12 فیصد کھو دیا، کمزور کرنسی کی وجہ سے انتہائی افراط زر کا خدشہ ہے اور اس سال اقتصادی ترقی کی شرح منفی 1 فیصد تک گر جانے کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے۔امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ سسٹم میں گرین بیک کی طلب اور رسد کے درمیان وسیع فرق کی وجہ سے ہے۔ درآمدات پر چلنے والی معیشت میں ڈالر کی زیادہ مانگ کے مقابلے میں سپلائی نمایاں طور پر کم ہے۔ طلب اور رسد کے درمیان فرق کو کم کرنے کے لیے مرکزی بینک کے پاس انٹربینک مارکیٹ میں داخل کرنے کے لیے ڈالرز موجود نہیں۔ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 3.7 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں جبکہ ڈیمانڈ پیمنٹ اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔پاکستان کی اوسط درآمدی ادائیگی رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً 5 بلین ڈالر ماہانہ ہے، غیرملکی قرضوں کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے۔لہٰذا حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر لچکدار شرح مبادلہ کا نظام بحال کر دیا ہے۔ اس کے مطابق مارکیٹ فورسز (زیادہ تر کمرشل بینک) کو اب معیشت میں غیرملکی کرنسی کی طلب اور رسد کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ کا تعین کرنے کے اختیارات واپس کر دیے گئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریٹ کے تعین کے لیے مارکیٹ فورسز کو کس طرح ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے جبکہ حکومت اور مرکزی بینک نے 2022ئ میں ایکسچینج ریٹ کے سٹے میں 13 کمرشل بینکوں کو ملوث پایا ہے۔