سفر یاد۔۔۔قسط48
شیئر کریں
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس نہ آیا۔ معلوم ہوا کہ اس نے چھٹی میں مزید ایک ماہ اضافے کی درخواست کردی ہے۔ یعنی ایک اور مہینہ ہمیں اپنا اور سیمی کا کام کرنا پڑے گا، یہاں سے ہماری مشکلات کا آغاز شروع ہوگیا، اب ہمیں کالج میں ذرا دیر کی فرصت بھی نہیں مل پا رہی تھی، ہم اکثر لنچ ٹائم میں بھی کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے، کئی بار جلال صاحب نے اس بات کا گلہ بھی کیا لیکن کام چوری ہماری عادت نہیں اور ہم آج کا کام آج مکمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے جیسے تیسے کام نمٹانے میں لگے رہتے تھے۔ کام کے سلسلے میں ہمارا کالج انتظامیہ سے بھی ملنا ہوتا تھا جو سب کے سب وطنی تھے ان کے ساتھ معاملات میں بہت محتاط رہنا ہوتا ہے کیونکہ وہ اجنبیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اس لئے پتہ نہیں چلتا ان کو کس بات پر کب غصہ آجائے۔ ہمارے ساتھ انتظامیہ کے کسی شخص کی کبھی بدمزگی نہیں ہوئی تھی لیکن اب شائد کام کی ٹینشن ہمارے ضبط پر بھاری پڑنے لگی تھی، ایک دن انتظامیہ کے ایک افسر محمد رویلی نے ہمیں ٹوک دیا ، محمد کے ساتھ ہماری اچھی سلام دعا ہوگئی تھی وہ تھا بھی تمیز کا آدمی اس لئے اس سے بات کرکے خوشی ہوتی تھی۔ اس نے کہا: یہ تم کو کیا ہو گیا ہے تم سے پوچھو کچھ جواب کچھ دیتے ہو لگتا ہے، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ محمد رویلی سے ہمارا اچھا تعلق تھا اس لئے اس نے ہمارے رویہ میں آنے والی تبدیلی کو نہ صرف نوٹ کیا بلکہ ہمیں ٹوک کر اس جانب ہماری نشاندہی بھی کردی۔ انتظامیہ کا کوئی اور افسر ہوتا تو ہمیں بہت ہی بھلی بری سناتا اور ہم جواب میں بھڑک جاتے جس سے معاملہ خراب ہو سکتا تھا۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ کام کی زیادتی کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی تھی، ہم نے غور کیا تو ادراک ہوا کہ ہمارے ساتھی بھی ہم سے خوش نہیں تھے، جلال صاحب بھی کچھ کھنچے کھنچے سے تھے جبکہ ولا میں علی اور منیب وغیرہ کا رویہ بھی کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ ظاہر ہے قصور ہمارا ہی تھا کام کی تھکن نے ہمیں چڑچڑا بنا دیا تھا جس کی وجہ سے قریبی لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ خراب ہو گیا تھا۔ رد عمل میں وہ بھی ہم سے کھنچ گئے تھے۔ اب تک تو ہمارے رویے کے باوجود ان لوگوں نے ہمیں برداشت کیا ہوا تھا لیکن آگے جا کر ہو سکتا ہے تعلقات میں دراڑ آجاتی۔
کام کی زیادتی کا دباو¿ کسی صورت انسانی صحت کے لئے اچھا نہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دفتری امور میں طویل مدت تک مگن رہنے سے ذیابیطس، اعصابی دباو، موٹاپا اور دیگر بیماریوں کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ زیادہ کام سے ذہنی دباﺅ بڑھنے کے نتیجے میں کھانے پینے کے معمولات پر فرق پڑتا ہے اور لوگ عموما صحت بخش غذا نہیں لے پاتے جس کی وجہ سے ان کا وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ذہنی دباو¿ ، وزن میں اضافے اور امراضِ قلب میں بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے جاگنگ، ورزش اور سائیکل چلانے سے ملازمت کی ڈپریشن اور کام کا دباو¿ دور کرنے مدد ملتی ہے۔ محمد رویلی کی مہربانی سے ہمیں اپنے کام کے دباو¿ اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل کا احساس ہو گیا تھا۔ کام کی مقدار پر تو ہمارا کنٹرول نہیں تھا لیکن کام کے دباو¿ کے اثر کو سر پر اس قدر سوار نہ کرنا تو کسی حد تک ہمارے اختیار میں تھا ہی، سو ہم نے کھانے پینے کی روٹین درست کی اور شام میں ورزش بھی شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ساتھیوں سے خراب رویے کی معذرت بھی کرلی جسے انہوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیا۔۔۔ جاری ہے
٭٭