قائد اعظم کو مقبوضہ وادی میں شاندار خراج عقیدت
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں مختلف آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے سرینگر اور دیگر علاقوں میں دیواروں، کھمبوں اور ستونوں پر چسپاں پوسٹروں میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو ان کے یوم پیدائش پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے کہا گیا کہ مرحوم قائد ایک انتہائی دور اندیش رہنما تھے جن کی عظیم قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں اپنے لئے ایک الگ وطن کے حصول میں کامیاب ہو ئے۔ پوسٹروں میں لکھا ہے کشمیریوں کی تحریک دراصل پاکستان کے تکمیل کی تحریک ہے، کشمیری عوام کو قائد اعظم محمد علی جناح اور انکی قیادت میں معرض وجود میں آنے والی مملکت خداد اد کیساتھ بے انتہا محبت ولگائو ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسی وقت مکمل ہوگا جب پورا جموںوکشمیر بھارت کی غلامی سے آزاد ہوکر اسکا حصہ بنے گا۔ پوسٹروں میں مزید لکھا ہے کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے اور مودی حکومت کشمیریوں کو اپنا پیدائشی حق، حق خود ارادیت مانگنے پر جس بے دردی سے تختہ مشق بنا رہی ہے اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک الگ وطن کا قائداعظم کا مطالبہ برحق اور درست تھا۔ پوسٹر سماجی رابطوں کی سائٹوں فیس بک ، وٹس ایپ اور ٹویٹر وغیرہ پر بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔
کشمیری عوام تحریک پاکستان کا حصہ رہے جنہوں نے قیام پاکستان سے تقریباً ایک ماہ پہلے19جولائی 1947کو مملکت خداد داد کیساتھ الحاق کی قرارداد پاس کی۔ کشمیری عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، انہوں نے بھارتی قبضے کو مسترد کیا ہے اور وہ گزشتہ 77سے تکمیل پاکستان کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
قائد اعظم کی دوراندیش نگاہوں نے سیاسی،دفاعی ،اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کوسا منے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے19 جولائی 1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سرینگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی۔ قائداعظم فرماتے ہیں” کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔کوئی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے”3 جون1947 کے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئے تھے ان سے یہ بات واضح طور پر مترشح ہوئی ہے کہ کشمیرکو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن جب کشمیریوں کو حق خود اردیت کا موقع نہیں دیا گیا تو کشمیریوں نے اولاً 19 جولائی 1947ء کو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی۔ بعد میں 24 اکتوبر 1947ء کو سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو 27اکتوبر1947ء کو ہندوستان کی افواج نے کشمیر میں مداخلت کا آغاز کیا تو قائد اعظم نے فوری طور پر پاکستانی کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ وہ اپنی افواج کشمیر میں داخل کر دے لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ قائداعظم کے اس حکم اور کمانڈر انچیف کی طرف سے حکم عدولی کے متعدد مستند حوالے موجود ہیں۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب” مائی برادر” میں بھی قائد اعظم کی کشمیر سے وابستگی اور تشویش کے بارے میں جو اشارہ دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کشمیر کے بارے میں کس حد تک فکر مند تھے۔ آپ لکھتی ہیں کہ قائد اعظم کے آخری ایام میں ان پر جب غنودگی اور نیم بے ہوشی کا دورہ پڑتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ کشمیر کو حق ملنا چاہیے آئین اور مہاجرین کے الفاظ استعمال کیے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 1926ء میں کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کشمیری زعماء سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اسوقت اگرچہ کشمیر میں تحریک حریت کے خدوخال تو زیادہ نمایاں نہیں تھے لیکن کشمیری مسلمانوں کی حالت زار درگرگوں تھی اور انہیں ہندؤوں کے مقابلے میں دوسرے تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ قائداعظم دوسری بار1929ء تیسری بار 1936ء اور چوتھی بار1944ء میں کشمیر گئے جہاں آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں سے خطاب بھی کیا اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ کشمیر میں قیام کیا۔ قائداعظم 47ـ1946ء میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے لیکن مصروفیات کے باعث نہ جا سکے۔
1935ء میں قائداعظم کے دورہ کشمیر پر ایک عظیم الشان جلسہ سرینگر پتھر مسجدمیں منعقد ہواجس میں چوہدری غلام عباس نے سپاسنامہ پڑھا۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا ”میں آپ پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آزادی کیلئے آپ کی جدوجہد اوربرٹش انڈیا میں میرے معاملات کے ساتھ اپنی ہمدردی اور نیک خواہشات ظاہر کریں گے۔ یقینا آپ ایسا کریں گے ”۔یہ وہ وقت تھا جب قائداعظم نے ایک سال بیشتر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور آپ تمام برصغیر میں مسلم لیگ کی تنظیم نو میں مصروف تھے۔ دوسری طرف کانگریس مسلمانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کیلئے کوشاں تھی۔جون 1944 میں مسلم کانفرنس کا سالانہ جلسہ قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چوہدری غلام عباس کے سپاسنامے کے بعد قائداعظم نے کشمیریوں سے خطاب فرمایا ”جب میں اس جلسے پر نگاہ ڈالتا ہوں مجھے خوشی ہوتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ مسلمان اب جاگ اٹھے ہیں اور وہ مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں ایک مہینے سے یہاں مقیم ہوں اور اس عرصے میں میرے پاس ہر خیال کے آدمی آئے ہیں میں نے دیکھا کہ 99فیصد جو میرے پاس آئے ہیں مسلم کانفرنس کے حامی ہیں۔میں آپ کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ صاف صاف اور کھلے الفاظ میں اعلان کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ عزت کا صرف ایک راستہ ہے وہ ہے اتفاق و اتحاد ایک پرچم،ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم۔ اگر آپ نے یہ حاصل کیا تو آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔ مسلم لیگ اور ہماری خدمات’ تائید و حمایت آپ کے قدموں پر ہوگی”۔
1946ء میں جب کانگریسی رہنماء جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے سخت کوششیں کررہے تھے۔ قائداعظمنے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی رہنمائی عطا کی۔ قائداعظمنے فرمایا ”جموں کشمیر کے مسلمانوں سے میں اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگانگت کو بہرکیف برقرار رکھیں اور چوہدری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔ 14اگست1947کو پاکستان تو بن گیا لیکن کشمیر لٹک گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔