میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فاروق ستار کا چھکااور سیاسی ڈولفن

فاروق ستار کا چھکااور سیاسی ڈولفن

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

چھکا لگانا کرکٹ کی اصطلاح ہے اور جب سیاست میں چھکا لگانے کی بات ہو تو اس کے ساتھ ہی عمران خان کا نام سامنے آجاتا ہے۔ لیکن یہ جو چھکا لگا ہے اسے لگانے والا کوئی پیشہ ور کرکٹر تو کجا شاید اس نے گھر کے صحن اور محلہ کی سڑک سے آگے کی کرکٹ کھیلی بھی نہ ہو لیکن چھکا بہر حال چھکا ہوتا ہے چاہے وہ کرکٹ کے میدان میں لگے یا سیاست کے خار زار میں۔
فاروق ستار کے اس چھکے نے ماضی کے دریچے کھول دیے، شارجہ کا میدان ہے اور کھیل آخری بال پرآرکا تھا، اگر چار رنزدرکار ہوتو جہاں کریز پر موجود کھلاڑی پر ہی نہیں بالنگ اسٹارٹ پوائنٹ پر کھڑے بالر پر بھی موجود دبائو کا اندازا لگانا مشکل نہیں ،جاوید میاں داد نے جس طرح اسٹرائیک حاصل کی ۔ وہ اس کی مہارت اور اپنے بلے پر اعتماد کا ثبوت تھا تو بھارتی کپتان نے بھی سارے فیلڈرز بائونڈریز پر لگا کر یہاں تک کہ وکٹ کیپر کو بھی ممکن حد تک پیچھے بھیج کر بائی کے چوکے کا راستا بند کردیا تھا اور آخری بال پر چوکا ہی مطلوب تھا، اس سے کم کا مطلب شکست تھا بالر نے بھی کمال مہارت کا مظاہرہ کیا اور گیند کو فل ٹاس بنا دیا۔ کرکٹ میں اکثر دفاعی شارٹ اگلے قدم پر اور جارحانہ شارٹ پچھلے قدم پر کھیلے جاتے ہیں، بہت بااعتماد کھلاڑی دو قدم آگے بڑھ کر شارٹ لگانے کا حوصلہ بھی کرتے ہیں لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب بالر شارٹ پچ بال کرارہا ہو کہ اس طرح بال کو ہاف والی بنانا آسان ہوتا ہے، لیکن چیتن شرما نے تو بال کو فل ٹاس بنا دیا تھا جس پر چوکا یا چھکا مارنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن یہ اعصاب کی مضبوطی اور اپنے کھیل پر اعتماد کا مقابلہ تھا جاوید میاں داد نے جب دو قدم آگے بڑھ کر فل ٹاس بال کو شارٹ لگایا تو اس کے اعتماد اور اعصاب کی مضبوطی کا یہ عالم تھا کہ شارٹ کے ساتھ ہی اس نے فاتحانہ انداز میں پویلین کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔
گزشتہ دنوں فاروق ستار نے سید مصطفی کمال کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے ایک نام ایک جھنڈے اور ایک نشان کے ساتھ آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے کراچی کے سیاسی سمندر میں تلاطم پیدا کردیا ۔ کہیں اس کا خیر مقدم ہوا تو کہیں اس کو غیر فطری اتحاد قرار دیا گیا ۔اس کے اثرات کا یہ نتیجہ تھا کہ بعد ازاں فاروق ستار نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ لیکن چند گھنٹے کا یہ اتحاد پاک سرزمین پارٹی کی ناکامی بن گیا ہے کہ اس کی قیادت لاکھ لاف زنی کرے ناکامی کی اس مہر کو مٹانا ممکن نہیں ہے۔
تقریبا دو ہفتہ قبل سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے تھر اور نواب شاہ کے دورے کے بعد حیدرآباد میں پریس کانفرنس کے دوران میں نہ صرف انتخابات سے قبل کسی اتحاد کے امکان کو یکسر مسترد کیا تھا بلکہ اسے سیاسی مخالفین کی خواہش ناتمام قرار دیا تھا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران بھی سید مصطفی کمال حسب روایت ایم کیو ایم پاکستان پر گرجے برسے تھے اور کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرا کی پارٹی میں شمولیت کے بعد ایم کیو ایم کی مزید وکٹیں گرنے کی نوید بھی سنائی تھی اور سوشل میڈیا پر حیدرآباد کے ڈپٹی میئر اور دو ایم پی ایز کی پی ایس پی میں شمولیت کی خبریں گرم رہی تھیں اور اس پریس کانفرنس کے دوران بھی سید مصطفی کمال نے ایم کیو ایم پاکستان کو ایم کیو ایم لندن کی بی ٹیم قرار دیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان دشمنوں اور را کے ایجنٹوں سے کسی بھی قیمت پر ہاتھ نہیں ملائیں گے۔
جس پریس کانفرنس میں فاروق ستار نے سید مصطفی کمال کے ساتھ بیٹھ کر ایک پرچم ایک نام اور ایک نشان کے تحت الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اس پریس کانفرنس میں سید مصطفی کمال، فاروق ستار کے بائیں جانب موجود تھے اس پریس کانفرنس میں واضح نہیں کیا گیا تھا کہ نام کیا ہوگا، پرچم کونسا ہوگا اور کس نشان پر الیکشن لڑے جائیں گے۔ اتنے غیر واضح اتحادی اعلان کو صرف سید مصطفی کمال ہی اپنی کامیابی اور کامیاب حکمت عملی قرار دے سکتے تھے ابھی اس پریس کانفرنس کو ختم ہوئے اتنا وقت ہی نہیں گزرا تھا کہ سید مصطفی کمال پریس کانفرنس کی جگہ سے اپنے قیام اپنے مرکزی دفتر پہنچ پاتے کہ فاروق ستار نے یو ٹرن لے لیا۔ لیکن کیا یہ فاروق ستار کا یو ٹرن تھا یا اردو محاورہ کے مطابق دایاں دکھا کر بایاں مارنے کا عمل۔ شاید فاروق ستار نے سیدمصطفی کمال کو بائیں جانب بٹھوایا ہی اسی لیے تھا کہ انہیںمارنے میں دقت نہ ہو۔
یوں تو ایم کیو ایم کی قیادت ہمیشہ دبائو میں رہی ہے لیکن 3 مارچ 2016کو انیس قائم خانی اور سید مصطفی کمال کی کراچی کی سیاست میں دھواں دار انٹری اور 22اگست2016 کے بانی کے خطاب نے فاروق ستار کو اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا کہ جہاں ایک طرف قائد سے وفاداری اور دوسری جانب پارٹی کی بقا اور کارکنان کے تحفظ میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اور اس دوران میں کسی سے مشورہ اور کسی کو اعتماد میں لینے کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی، تیسری جانب یہ علم بھی نہیں تھا کہ جس پارٹی کو بچانے اور کارکنان کے تحفظ کے لیے وہ یہ انتہائی قدم اٹھا رہے ہیں وہ پارٹی اور کارکنان اس فیصلہ کو قبول بھی کریں گے یا ان کا معاملہ’’ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘‘والا ہوگا۔لیکن وقت نے فاروق ستار کے فیصلہ کو درست ثابت کیا اور ایم کیو ایم کالعدم قرار دیے جانے اور کارکنان کالعدم تنظیم کے کارکنان کے طور پر آزمائشوں سے بچ گئے اب فاروق ستار کا بانی ایم کیو ایم سے کتنا تعلق ہے وہ یا تو فاروق ستار خود جانتے ہیں یا کراماً کاتبین کی شہرت رکھنے والے حساس اداروں کے ذمہ دار۔
ایک دو ایم این ایز اور چند ایم پی ایز کی پارٹی میں شمولیت کے بعد سید مصطفی کمال نے ایم کیو ایم کی ریڑھ کی ہڈی کو اپنا ہدف بنایا ۔ اب ان کا فوکس یونٹ اور سیکٹر کے ذمہ دار تھے گویا یہ ایم کیو ایم کی جڑیں کھوکھلی کرنا تھا، فاروق ستار اس کا ادراک بھی رکھتے تھے اور تدارک کے لیے کوشاں بھی کہ شنید ہے کہ گزشتہ چھ آٹھ ماہ سے فاروق ستار اور مصطفی کمال کے مابین رابطے تھے اور بیک ڈور معاملات طے کیے جارہے تھے اور ذرائع کے مطابق یہ اتحاد بھی 1977میں قائم ہونے والے پاکستان قومی اتحاد کی طرح انتخابات کے اعلان کے چند گھنٹے بعد منظر عام پر آنا تھا لیکن کراچی کے ڈپٹی میئر کی پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اور حیدرآباد کے ڈپٹی میئر اور 2ایم پی ایز کے پاک سرزمین پارٹی میں جانے کی خبروں نے فاروق ستار کو وقت سے پہلے یہ شارٹ کھیلنے اور سید مصطفی کمال کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کا یہ فیصلہ کرنے پرمجبور کردیا کہ ہر بڑے ذمہ دار کی پی ایس پی میں شمولیت سے ایم کیو ایم کی پوزیشن کمزور ہورہی تھی اور یہ خدشہ اپنی جگہ موجود تھا کہ عین وقت پر کہیں سید مصطفی کمال تمام پیش رفت سے انکاری نہ ہوجائیں لہذا یہ شارٹ کھیلنا ضروری ہوگیا تھا ۔
فاروق ستار کی جانب سے اپنے فیصلہ سے رجوع پر سیاسی قائدین نے خوب نشتر زنی کی ہے۔ کسی نے اسے بانی کی پیروی قرار دیا ہے تو کوئی فاروق ستار کو مسٹر یو ٹرن قرار دینے پر بضد ہے، کوئی انہیں چوراہے پر کھڑا ایسا مسافر قرار دے رہا ہے جس کو اپنی منزل کی سمت کا علم نہ ہو تو کوئی اسے غیرمرئی قوتوں کے دبائو کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ لیکن کوئی کچھ بھی کہتا رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فاروق ستار کی اس چال نے سید مصطفی کمال کوشہ مات دے دی ہے۔ جہاں فاروق ستار کی اس چال نے پرواز کے لیے تیار پرندوں کے پر کاٹ دیے ہیں، وہیں یہ کہہ کر کہ پرچم وہی ترنگا ہوگا اور نشان وہی پتنگ، ڈولفن کے اندھا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ڈولفن چاہے دریائی ،سمندری ہو سیاسی بصارت سے محروم ہوتی ہے۔
سید مصطفی کمال نے اپنی پریس کانفرنس میں جو جواب دیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ایم کیو ایم لندن کی بی ٹیم سے معاملات طے کرنے اور مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ یہاں یہ واضح کردوں کہ پی ایس پی کے قائدین سید مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں تھر اور نوابشاہ کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کو اگرچہ انہوں نے انتہائی کامیاب قرار دیا تھا لیکن اس دورے کے دوران اکثر مقامات وہ تھے جہاں قائم خانی، راجپوت، خانزادہ، رائو اور رانگڑ برادریاں آباد ہیں اور یہ تمام برادریاں ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اس اتحاد کے بننے اور چند گھنٹے میں ٹوٹ جانے نے پی ایس پی کی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے ، سندھی کہاوت ہے کہ زیادہ سیانا کوا جب بھی گرفت میں آتا ہے تو دونوں پیروں سے گرفت میں آتا ہے۔ سید مصطفی کمال کچھ بھی کہتے ہیں رہیں لیکن ان کا معاملہ اس سندھی کہاوت کے مطابق ہواور مختلف سیاسی جماعتوں جن میں ایم کیو ایم مخالف سیاسی جماعتیں نمایاں ہیں سے پی ایس پی میں آنے والے سیاسی پرندوں کے دوبارہ اپنے گھونسلوں کی جانب اڑ جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ وہ جس کے بغض میں پی ایس پی کو مضبوط کررہے تھے وہ تو باہم اتحادی نکلے۔ اسی طرح فاروق ستارکے اس اقدام نے ایم کیو ایم سے پی ایس پی میں جانے والوں کا راستا دشوار کردیا ہے۔ یوں فاروق ستار کا یہ شارٹ سیاسی تاریخ کا شاندار چھکا بن گیا ہے جو انتہائی دبائو کے عالم میں لگایا گیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں