راہل گاندھی ۔۔ ایک رشتہ درد کا ہے میرے اُس کے درمیاں
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
راہُل گاندھی کا پربھنی دورہ ، اس سے قبل ہاتھرس جانا اور سنبھل جانے کی کوشش بی جے پی کو پریشان کیے ہوئے ہے ۔ فی الحال حزب اختلاف کا رہنما نے نہ صرف ایوان کے اندر بلکہ باہر بھی بی جے پی کے ناک میں دم کررکھا ہے ۔ سرمائی اجلاس میں اڈانی کے معاملے میں بحث نے سرکار کی نیند اڑا دی۔ اس کی جانب توجہ ہٹانے کے لیے ‘ایک ملک ایک انتخاب ‘ کا شوشا چھوڑا گیا توحزب اقتدار کے 20ارکان کی غیر حاضری نے مودی سرکار کی قلعی کھول دی ۔ دو تہائی تو دور پچاس فیصد ارکان نے بھی اس قانون کی پیشکش کے حق میں رائے نہیں دی اور اسے جے پی سی کے ٹھنڈے بستے میں ڈالنا پڑا۔ راہل کے ہاتھ آئین کے نسخے نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو من کی بات اگلنے پر مجبور کردیا اور پھر بابا صاحب امبیڈکر کی توہین کو لے کر اس طرح آسمان سر پر اٹھایا گیا کہ سنگھیوں کو تارے نظر آنے لگے ۔ اس حتجاج کوروکنے کی کوشش کی گئی تو راہل کے ایک دھکے سے بی جے پی کے دو ارکان پارلیمان نے آئی سی یو میں بھرتی ہونے کا ناٹک کرڈالا مگر وہ بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوٹ گیا ۔راہل کو جیل بھیجنے کا سپنا دیکھنے والوں نے اسے ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دیا ۔ راہل نے بی جے پی کے لیے ایوان کے اندر سے زیادہ مسائل باہر کھڑے کیے ۔
سنبھل میں 19 نومبرکوایک مقامی عدالت نے مغل دورکی شاہی جامع مسجد کے سروے کے حکم دیا تو کشیدگی پھیل گئی ۔ 24 نومبرکو دوسرے سروے کے دوران تشدد پھوٹ پڑا، جس میں چارافراد شہید اورمتعدد زخمی ہوگئے ۔ پولیس نے اس معاملے میں الٹا سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق کو ملزم بنادیا ۔ راہل گاندھی اوران کی بہن پرینکا گاندھی جب اس تشدد میں ہلاک ہونے والے مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لئے نکلے تو انہیں غازی پوربارڈرپریوپی پولیس نے روک دیا اس لیے وہ سنبھل نہیں جاسکے ۔ اس کے بعد مہلوکین بلال، رومان، ایان اور کیف کے اہل خانہ کو کانگریس رہنما رضوان قریشی، سچن چودھری اور پردیپ نروال سنبھل سے دہلی لے کرآئے تاکہ راہل اور پرینکا سے ملاقات کرائی جاسکے ۔ اس موقع پر راہل اورپرینکا نے پسماندگان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ ملاقات کے بعد پردیپ نروال نے کہا کہ ”ہم نے سنبھل جانے کی کوشش کی تھی، لیکن ہمیں روک دیا گیا۔ آج متاثرہ کنبہ یہاں آیا، یہ درد کا رشتہ ہے ۔
10 دسمبر کو دہلی میں 10 جن پتھ پر واقع رہائش گاہ پر سنبھل تشدد میں متاثر ہونے والے سبھی کنبوں کے تقریباً 11 اراکین وہاں موجود تھے ۔ اس موقع پر متاثرین کے اہل خانہ نے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی سے اپنی تکالیف بیان کی ۔دونوں ہی کانگریس رہنماوں نے سبھی متاثرین کی باتیں بغور سنیں اور کہا کہ ہر پریشانی میں وہ ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران سہارنپور سے کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران مسعود بھی موجود تھے ۔ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر اس ملاقات کی تصویریں شیئر کرکے لکھا کہ کہ”سنبھل میں پیش آنے والا واقعہ بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کا نتیجہ ہے ، اور یہ پرامن سماج کے لیے خطرناک ہے ۔ ہمیں ساتھ مل کر اس تشدد و نفرت انگیز ذہنیت کو محبت و بھائی چارہ سے ہرانا ہوگا۔” پوسٹ کے آخر میں یہ بھی لکھا گیا کہ ”ہم سبھی متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کو انصاف دلانے کی لڑائی لڑیں گے ۔” یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ اب کانگریس بی جے پی کے اس دباو سے نکل چکی ہے کہ مسلمانوں کی حمایت پرسنگھ پریوار اس کو مسلم ناز برداری کا ملزم ٹھہرا کر ہندووں کو ان کے خلاف بھڑکادے گا۔
سنبھل کے متاثرین سے ملاقات کے دودن بعد راہل گاندھی بلا اعلان ہاتھرس میں دلت کنبہ سے ملنے پہنچ گئے ۔ اس بابت کانگریس نے اپنے آفیشیل ایکس ہینڈل پر راہل گاندھی کے متھرا دورہ کی جانکاری دی اور اس کے ساتھ ایک نیوز چینل کی ویڈیو کلپ بھی منسلک کردی ۔ کانگریس نے مذکورہ پوسٹ میں لکھا کہ ”ہاتھرس میں 2020 میں ایک دلت بیٹی کے ساتھ ہوئی بربریت نے پورے ملک کو حیران کر دیا تھا۔ جب متاثرہ کنبہ کے دل میں دُکھ اور تکلیف تھی، تب راہل گاندھی جی ان سے ملنے ہاتھرس پہنچے تھے اور انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک بار پھر متاثرہ کنبہ نے عوامی ہیرو راہل گاندھی جی کو خط لکھ کر اپنی تکلیف بتائی، جس کے بعد راہل گاندھی جی متاثرہ کنبہ سے ملنے پہنچے ۔” اس کے ساتھ کانگریس نے یہ بھی لکھا کہ ”انصاف کے لیے جنگ جاری ہے ، انصاف کا حق ملنے تک۔” اس معاملے میں راہل گاندھی نے فکرمندی کا اظہار کرکے ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا یقین دلایا۔
متاثرہ کنبہ سے ملاقات کے بعد راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر لکھا کہ ”آج ہاتھرس جا کر 4 سال قبل ہوئی شرمناک اور افسوسناک واقعہ کے متاثرہ کنبہ سے ملا۔ ملاقات کے دوران انھوں نے جو باتیں بتائیں اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔” انہوں نے آگے متاثرین کی حالتِ زار بیان کرتے لکھا کہ ”پورا کنبہ آج بھی خوف کے سایہ میں جی رہا ہے ۔ اس کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ وہ آزادی کے ساتھ کہیں آ اور جا نہیں سکتے ، انھیں ہر وقت بندوق اور کیمروں کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے ۔راہل گاندھی نے بی جے پی سرکار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لکھا کہ ”بی جے پی حکومت نے ان سے جو وعدے کیے تھے ، وہ آج تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ نہ تو سرکاری ملازمت دی گئی ہے اور نہ ہی انھیں کسی دوسری جگہ گھر دے کر منتقل کرنے کا وعدہ پورا کیا گیا” ۔ ناانصافی کی یہ انتہا ہے کہ ” حکومت اس متاثرہ کنبہ کو انصاف دینے کے بجائے ان پر طرح طرح سے ظلم کر رہی ہے مگر دوسری جانب ملزم کھلے عام گھوم رہے ہیں۔” یوگی جی دلتوں اور خواتین کے حوالے سے دعویٰ تو بڑا بڑا کرتے ہیں مگر متاثرہ کنبہ کی مایوسی اور بے بسی بی جے پی کے دلتوں پر مظالم کی حقیقت ظاہر کرتی ہے ۔ راہل نے یقین دلایا کہ ” ہم اس کنبہ کو یوں ہی ان کے حال پر رہنے کو مجبور نہیں ہونے دیں گے ۔ انھیں انصاف دلانے کے لیے ہم پوری طاقت کے ساتھ لڑیں گے ”۔ہاتھرس دورے کے گیارہ دن بعد 23 دسمبر کو وہ مہاراشٹر کے شہر پربھنی پہنچ گئے ۔ جہاں اس ماہ کے شروع میں تشدد نے دو افراد کی جان لے لی۔ راہل گاندھی کا یہ دورہ پربھنی کے حالیہ پرتشدد واقعات اور پولیس حراست میں سومناتھ سوریہ ونشی کی ہلاکت کے مسئلے کے تمام پہلوؤں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے تھا ۔ انہوں نے مرنے والے کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور متوفی کی تصویر پر پھول چڑھائے ۔ 10 دسمبر کی شام پربھنی شہر میں ریلوے اسٹیشن کے باہر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے کے قریب آئین کی نقل کو نقصان پہنچایا گیا تھا، جس کے بعد پربھنی میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ آگے چل کر سومناتھ سوریاونشی نامی قانون کے طالبعلم کو پولیس نے گرفتار کرلیا اور حراست میں ان کی موت ہوگئی۔ متاثرہ کنبہ سے ملاقات کے بعد راہل گاندھی نے میڈیا سے کہا کہ ”میں پربھنی میں تشدد متاثرہ کنبہ سے ملا ہوں، اس کے ساتھ ہی میں نے ان سے بھی ملاقات کی ہے جنھیں مارا پیٹا گیا ہے ۔ مجھے پوسٹ مارٹم رپورٹ، تصویریں اور ویڈیوز دکھائی گئی ہیں۔ یہ صد فیصد حراستی موت ہے ۔ پولیس نے نوجوان (سومناتھ سوریہ ونشی) کا قتل کیا ہے ۔” انہوں نے اسے واضح الفاظ میں قتل کہا ۔اس سے آگے بڑھ کر راہل گاندھی نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس پر الزام لگایا کہ انہوں نے اسمبلی میں جھوٹ بول کر پولیس والوں کی پردہ پوشی کی اس لیے وہ بھی اس جرم میں شامل ہیں ۔ انہوں اسے آر ایس ایس کے نظریہ سے جوڑ کر کہا کہ وہ آئین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی جانچ ہو اور جن لوگوں نے یہ کیا ہے ، انھیں سزا ملے۔ اس دوران بیڈ میں بھی سرپنچ سنتوش دیش مکھ کا قتل ہوگیا ۔ وزیر اعلیٰ نے ملزمین کے خلاف مکوکا کے تحت کارروائی اور دونوں کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے کی امداد کا گھر بیٹھے اعلان کیا مگر نہ خود گئے اور نہ اپنے کسی وزیر کو مزاج پرسی کے لیے بھیجا ۔ اس کے برعکس پہلے شرد پوار اور ان کے بعد راہل گاندھی نے پربھنی کا قصد کیا تو بی جے پی کے مہاراشٹر صدر باون کلے نے ان پر ناٹک اور سیاست کرنے کا الزام لگا دیا۔ مایا وتی نے بھی کہا کہ راہل مگر مچھ آنسو بہانے کی خاطر وہاں گئے ہیں۔ انہیں صرف برے وقت میں ہی دلت یاد آتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہبی جے پی اور بی ایس پی کو مظلوموں کی یاد کیوں نہیں آتی ؟ پچھلے ڈیڑھ سال سے منی پور جل رہا ہے مگر دنیا بھر میں گھومنے والے وزیر اعظم کو وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔ وزیر داخلہ پڑوس کے تریپورہ میں جاتے ہیں مگر منی پور نہیں پھٹکتے اور کوئی جاتا ہے تو اس پر اوٹ پٹانگ بہتان تراشی کی جاتی ہے ۔ راہُل گاندھی کی دردمندی پر فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے