بھارت ،انتہا پسند وں کا مسلمانوں کے گھروں،عبادت گاہوںپر دھاوا
شیئر کریں
مودی کے تیسری دفعہ اقتدار سنبھالتے ہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر قیامت صغری ٹوٹ پڑی ہے ۔بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارت میں کشمیر سے لیکر کرناٹکا تک اقلیتیں اپنے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے برسرِپیکار ہیں،بھارتی مسلمان آئے دن انتہاپسند ہندں کے نظریات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں،ہندوتوا کے پیروکاروں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جلوسوں کو جان بوجھ مسلم اکثریتی علاقوں سے گزارا جاتا ہے اور نفرت انگیز نعرہ بازی کی جاتی ہے ۔ہندوانتہا پسند بی جے پی کے ہرکاروں کی سرپرستی میں مسلم گلی ،محلوں اور گھروں کی چھتوں پر زعفرانی پرچم لگانے پربھی اصرار کرتے ہیں ،حال ہی میں ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے بہرائچ ( مہاراج گنج) میں مشتعل ہندو انتہا پسند ہجوم نے مسلمانوں کے گھروں،عبادت گاہوں اور دوکانوں پر دھاوا بول دیا ۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ہجوم نے مسلم گھروں پر پٹرول بم پھینکے ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی اور پیسے چوری کیے ،لوگوں نے کھیتوں میں چھپ کر اپنی جان بچانے کی کوشش مگر شدت پسندوں نے کھیتوں میں بھی عورتوں اور بچوں کا پیچھا کیا۔ ہندوشدت پسندوں نے درجنوں گھروں کو جلا کر مکمل طور پر خاکستر کر دیا اور اب مسلم رہائشیوں کے پاس صرف وہی کپڑے بچے ہیں جو انہوں نے پہنے ہوئے ہیں۔مقامی لوگوں کا کہناتھا کہ ایسالگ رہاتھاجیسے پولیس نے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کی پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں ۔پولیس مشتعل ہجوم کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی تھی اور مسلمانوں کو ہائے رام کہنے پر مجبور کرتی رہی ،ہندو ہجوم نے میرے والد کی قبر پر بھی حملہ کیا، اس کی قبر پر لپٹی ہوئی چادر کو جلا دیا،اس واقعے کے بعد پولیس نے کچھ مسلمانوں کو بغیر کسی وجہ سے جھوٹے انکاونٹر میں مار دیا ہے ، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔مقامی ہندو کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا،ورنہ مہاراج گنج کا سارا صفایا ہو چکا ہوتا کیونکہ پولیس نے ہمیں دو گھنٹے کا وقت دیا تھا،بہرائچ سانحے کے اصل مجرم اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور پولیس ان کی سہولت کاری کررہی ہے ۔ بی جے پی ریاستی مشینری کا استعمال کر کے بھارت سے مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کا صفایا کر رہی ہے ،بین الاقوامی مبصرین نے بہرائچ سانحے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔بھارت میں ہونے والے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی معنی خیز خاموشی نے بہت سے نئے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔