انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست، وزارت داخلہ کا افسر طلب
شیئر کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تنظیم انصار الاسلام پر پابندی کیخلاف درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو منگل کو طلب کر لیا ۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جے یو آئی(ف)کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ جمعیت علما اسلام کو سنے بغیر وزارت داخلہ نے پابندی لگائی، وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اور انصارالاسلام پرائیویٹ ملیشیا نہیں بلکہ ہماری تنظیم جمعیت علما اسلام کا حصہ ہے ، قائداعظم کے دور سے یہ تنظیم کام کر رہی ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر انصار السلام کے کارکن سیاسی جماعت کے رکن ہیں تو پھر اس پر پابندی کا نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے ، پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن اس کے پاس ڈنڈے تو ہیں۔ وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔عدالت نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کا موقف سنا بھی ہے یا نہیں۔ وکیل نے جواب دیا کہ وزارت داخلہ نے ہمیں سنے بغیر پابندی لگا دی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب تنظیم کا باقاعدہ وجود ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسے لگ سکتی ہے ، کم از کم حکومت آپ سے پوچھ تو لیتی کہ یہ تنظیم کیا ہے ، 24 اکتوبر کو وزارتِ داخلہ نے انصارالاسلام پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک چیز موجود ہی نہیں اور اس پر پابندی لگا دی گئی، میری رائے کے مطابق تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے ۔ انصار کے کارکن خاکی وردی کی بجائے سفید پہن لیں توپھر کیا ہوگا۔عدالت نے وزارت داخلہ کے افسر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔