بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، وزیراعظم کی یقین دہانی ہوا میں اڑا دی گئی
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز بڑے طمطراق کے ساتھ اعلان کیاتھا کہ بجلی کے نرخ میں اضافے کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا اور 100 سے 200 یونٹ بلکہ استعمال کرنے والوں کے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہیں کیاجائے گا،وزیراعظم شہباز شریف کے اس اعلان کی گونج ابھی باقی ہی تھی اور حکومت کے بعض مبینہ طورپر زرخرید صحافی وزیراعظم کو خواجہ غریب نواز سے بھی زیادہ غریب نواز ثابت کرنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ بجلی فراہم کرنے والے اداروں نے ٹیرف میں اضافے کا پورا چارٹ شائع کرکے یہ ثابت کیا کہ وزیر اعظم کا کم وسیلہ یا کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو زیر بار نہ کرنے کا اعلان حقیقت پر مبنی نہیں ہے،بجلی کے نرخ میں اضافے کے اس ٹیرف کی اشاعت کے ذریعہ ایک بار پھرعوام کو جس شدت کا بجلی کا جھٹکا لگایا گیا ہے اس نے ماضی کے تمام بجلی کے جھٹکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور وزیراعظم کی مبینہ ہدایت کے باوجو ان صارفین کو بھی معاف نہیں کیا گیا جن کو ایک خاص حد تک بجلی خرچ کرتے ہوئے کچھ کچھ رعایت کا مستحق قرار دیا جاتا تھا،اور 100یونٹ والے گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3 روپے، 200 یونٹ تک 4 روپے یونٹ، 300 یونٹ تک 5 روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ سیلز ٹیکس اور دیگر محصولات شامل کرنے کے بعد صارفین کیلئے زیادہ سے زیادہ فی یونٹ 50 روپے 41 پیسے ہوجائے گا، اسی طرح کمرشل صارفین جو جنرل سروسز اے تھری کیٹگری میں شامل ہیں ان کا بنیادی ٹیرف ساڑھے 7 روپے اضافے کے ساتھ 37 روپے 31 پیسے ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت نے جن سخت شرائط پر حال ہی میں قرضے کا معاہدہ کیا ہے یہ اسی کانتیجہ ہے۔ اتنی مہنگی بجلی کے اثرات صرف روزمرہ کے اخراجات میں اضافے ہی کی صورت میں برآمد نہیں ہوں گے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات یوں پڑیں گے کہ صنعتی استعمال کیلئے فراہم کرنے والی بجلی کے اخراجات میں اضافے سے صنعتوں کی رفتار سست ہوتے ہوئے خدانخواستہ مکمل طور پر صنعتوں کے بند ہونے پر منتج ہوسکتی ہے کیونکہ انتہائی مہنگی بجلی سے صنعتی پیداوار کے حوالے سے ہم عالمی سطح پر بیرونی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی مہنگی اشیا کون خریدنے پر تیارہوگا؟ پھر جو بیرونی سرمایہ کار بڑی مشکل سے ہمارے ہاں سرمایہ کاری پر راضی ہوئے ہیں وہ اس صورتحال میں کیا اپنے سرمائے کے ڈوبنے کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ پاکستان لانے پر تیار ہوں گے؟ اور جو لوگ پہلے ہی مہنگی بجلی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے کنڈا کلچر کو فروغ دے رہے ہیں کو روکنے کی کوئی سبیل کی جاسکے گی؟ اس صورتحال کا دوسرا پہلویہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کو مفت بجلی کے ساتھ دیگر مراعات پر بے دردی سے قومی خزانہ لٹایا جا رہا ہے اس کا جواز کیا ہے ان دنوں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جو ٹرینڈز چل رہے ہیں ان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭