شہید کربلا کی منقبت و شہادت
شیئر کریں
مولانا محمد الیاس گھمن
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی نسبت ہی بہت بڑی ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ارشادات سے آپ رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت معلوم ہوتی ہے۔ چند احادیث یہ ہیں:
1: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی تو اس سے اللہ محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرتا ہے اسے جنت میں داخل کرے گا“۔
2: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں“۔
3: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین دونوں تھے، ایک ایک کندھے پر سوار تھا اور دوسرا دوسرے کندھے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک کا بوسہ لیتے اور دوسری دفعہ دوسرے کا۔
4: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کسی جنازہ پرگئے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ واپسی پرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کچھ تھکاوٹ محسوس ہوئی تو استراحت فرمانے لگے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ لیٹے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کے قدموں سے راستہ کا غبار ہٹانے لگے۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ایسے بزرگ صحابی کا یہ کام کرتے ندامت ہوئی اس لئے فرمایا آپ کیوں کررہے ہیں؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ اس بات کو چھوڑیئے اور مجھے اپنا کام کرنے دیجئے۔ بخدا آپ کی جو فضیلت مجھے معلوم ہے اگر دوسروں کو معلوم ہوجائے تو وہ آپ کو کندھوں اور گردنوں پر اٹھائیں۔
5: ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جوکہ عمر اور دیگر اوصاف میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کرتھے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بڑے احترام کے ساتھ سواری پر سوار کرایا۔ راوی حدیث نے اتنا احترام کرتے دیکھا تو یہ پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں؟ فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہوا کہ میں نے ان کو اس احترام کے ساتھ سوار کرایا ہے۔
شہادت
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب اہل کوفہ کے پرزور اصرار پر رخت سفر باندھنے کا ارادہ فرمایا حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور آپ کے بھائی محمد بن حنیفہ رحمہ اللہ نے خیرخواہانہ طورپر جانے سے روکا۔ مگرچونکہ آپ رضی اللہ عنہ سفر کا عزم کرچکے تھے اس لیے یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفرپرروانہ ہوگئے۔ دوران سفر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے چچازاد برادر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں قاصد بناکر بھیجا تاکہ وہاں کے حالات دیکھیں اور ہمیں مطلع کریں کہ اگر حالات درست ہوں تو ہم یہ سفر اختیار کریں۔ جب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سفر ہی میں تھے کہ اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو قتل کرادیا ہے۔ یہ خبر سن کررفقاء سفر نے قصاص لئے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
قافلہ روانہ ہوا۔ مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ نمودار ہوا اور اسے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مع ان کے لشکر کے گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر اس کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے خود ہی خطوط لکھ کر مجھے بلوایا ہے، اب دغابازی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے تمام خطوط اس کو دکھائے تو حربن یزید نے آپ رضی اللہ عنہ کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہا: ”جنگ سے بازرہو! بصورت دیگر قتل کردیئے جاؤگے۔“ یہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں روانہ ہوتا ہوں اور نوجوان مرد کیلئے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہوپھر آپ رضی اللہ عنہ نے دوسرا قاصد روانہ کیا جس کا نام قیس بن مسہر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبرحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ بالآخر آپ بہت طویل مسافت طے کرکے 2محرم 60ھ میں میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ ادھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔ جب اس کی آپ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو آمد کا مقصد پوچھا، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے ایک پیشکش کی۔ آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک چیز کواختیار کرلیں:
1: میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تاکہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں۔
2: میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔
3: مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کیا اور ابن زیاد کو یہ پیش کش لکھ بھیجی جس کے نتیجہ میں ابن زیاد نے حکم بھیجا کہ میں صرف ایک بات قبول کرتا ہوں کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ اپنے پورے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو اپنے متبعین کو نہایت پرجوش انداز میں خطبہ دیا۔ تمام رفقاء نے وفاداری کا بھرپور یقین دلایا۔ رات تمام حضرات نے اپنے رب کے حضورآہ وزاری کرتے ہوئے گزاردی۔ دشمن کے مسلح سوار ساری رات خیموں کے گرد گھومتے رہے۔ آخر دس محرم کو فجر کی نماز کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں۔
میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا۔ نتیجتاً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیمہ جلادیا گیا۔ دشمنوں نے انتہائی سفاکی اور بیدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جب زرعہ بن شریک نے نواسہ رسول رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمروبن انس نخعی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ زمین پر گرپڑے۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے خاتون جنت کے نورنظر کو ذبح کردیا۔ سرتن سے جدا کردیا۔ اس خون ریز معرکہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی شہید اور کوفیوں کے آدمی قتل ہوئے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے انتہائی گستاخی کرکے چھڑی کے ذریعے نواسہ رسول رضی اللہ عنہ کے ہونٹوں کو چھیڑ کر جسد خاکی کی توہین کی اور یزید کو لکھ بھیجا کہ میں نے حسین رضی اللہ عنہ کا سر قلم کردیا ہے۔
دسویں محرم کے ڈھلتے سورج نے انسانیت کی تاریخ کا یہ دردناک واقعہ دیکھا جس کو خون سے رنگین دھرتی نے اپنے سینے پر ہمیشہ کیلئے نقش کردیا۔ نوجوانان جنت کے سردار رضی اللہ عنہ اور خانہ نبوت کے چشم وچراغ نے اپنے خون سے شجر اسلام کو سیراب کرکے انمٹ داستان رقم کی جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔