میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی ہڑتال

آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی ہڑتال

منتظم
جمعه, ۲۸ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت اور آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے درمیان مذاکرات میں ٹینکرز مالکان اپنے کچھ مطالبات منوانے کے بعد ہڑتال ختم کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں جس کے بعد کراچی سمیت پورے ملک میں تیل کی سپلائی کی صورت حال میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن اور ٹینکر مالکان کے درمیان ہڑتال ختم کرنے پر اتفاق رائے بدھ کو وزارت پیٹرولیم کے دفتر میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میںہواجس میں سیکریٹری پیٹرولیم اور چیرپرسن اوگرا عظمی عادل حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شریک ہوئے جبکہ ٹینکرز ایسوسی ایشن کے چیرمین یوسف شاہوانی نے ٹینکر مالکان کی نمائندگی کی۔نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے مذاکرات کے دوران حکومت ٹینکرز ایسوسی ایشن کے مطالبے کے مطابق فریٹ ریٹ بڑھانے پرتیار ہوگئی جس کے بعد ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات میں فیصلہ ہواہے کہ آئل ٹینکرز مالکان کے مسئلے کا 15 روز میں حل نکالا جائے گا۔وزارت پیٹرولیم کے حکام اور آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے رہنمائوں کے درمیان یہ مذاکرات اپنی نوعیت کے منفرد مذاکرات نہیں تھے بلکہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آئل ٹینکر مالکان ملک بھر میں پیٹرول کی فراہمی روک کر شہریوں کو مشکلات کاشکار کرکے اپنے جائز وناجائز مطالبات منظور کرالیتے ہیں ،اس حوالے سے ابتدائی مذکرات کے بعد چیئرپرسن اوگرا کا یہ کہنا بالکل درست تھا کہ ٹینکرز ایسوسی ایشن نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور یہ حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں۔ حالیہ ہڑتال احمد پور شرقیہ کے سانحے اوراس کے بعد مختلف مقامات پر پے درپے آئل ٹینکر ز کے حادثات کے بعد اوگرا کی جانب سے آئل ٹینکر مالکان کو تیل کی نقل وحمل کے حوالے سے مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے احکامات کے بعد ہوا تھا۔تیل بردار ٹرکوں اور ٹینکروں کے مالکان کا اعتراض یہ تھا کہ تیل بردار ٹرکوں کے لیے قانونی طورپر جو شرائط لاگو ہیں ان پر عمل کیوں کیاجاتا ہے۔ آٹھ سال پہلے2009 میں بننے والے قانون کے تحت 50 ہزار لیٹر تیل لے جانے والے ٹینکرکے نیچے پانچ ایکسل اور کم ازکم دو ڈرائیور اور ایک کلینر بھی ساتھ ہوناچاہئے۔ مگر ان8 برسوں میں کسی کمپنی نے ان قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا۔ احمد پور شرقیہ کے جس ٹینکر کے المناک سانحہ میں دوسوسے زیادہ افراد شہید ہوئے، اس ٹینکر میں50 ہزار لٹر تیل تھااس کے چار ایکسل تھے اور صرف ایک ڈرائیور کراچی سے بہاول پور کے طویل فاصلہ پر جارہاتھا۔ اسے غالباً تھکن کے باعث نیند آگئی تھی۔ اس سانحہ کے بعد ہائی وے پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ کو ہوش آیا اور سڑکوں پر رواں تیل بردار ٹینکروں کی چیکنگ شروع ہوگئی۔ اس چیکنگ کے خلاف اربوں کے منافع والے تیل بردار مافیا کو تکلیف ہو رہی ہے۔ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ پانچ ایکسل کی پابندی گوار ا نہیں ، پانچواں ایکسل لگوانے پر کچھ اخراجات کرنا پڑیں گے۔ ادھر تیل و گیس کی وفاقی وزارت کا بیان ہے کہ احمد پور شرقیہ کے سانحہ کے بعد ملک بھر میں 9تیل بردار ٹینکر الٹ چکے ہیں اور لاکھوں لٹر تیل ضائع ہو چکا ہے۔ کراچی سے ملک بھر میں تیل پہنچتا ہے۔ اس عوام دشمن ہڑتال کے نتیجے میں ہزاروں مسافر برداروں بسوں، لاکھوں موٹر گاڑیوں کو تیل نہیں مل سکا، اس سے ملک میں ہر قسم کا پہیہ بند ہوسکتا تھا۔ اس سے یقینی طورپر ملک کے اندر سرگرم اور باہر کن عناصر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کااندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
حالیہ ہڑتال کے حوالے سے آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں کرایوں میں جبری کٹوتی کی جاتی ہے۔ موٹروے پولیس بلا جواز جرمانے کرتی ہے۔ اوگرا سمیت حکومتی اداروں کا رویہ سخت ہے۔ حکومت کی طرف سے ایسوسی ایشن کے جائز تحفظات بروقت دور ہوجاتے تو ہڑتال کی نوبت نہ آتی۔ ایسوسی ایشن کے ان تمام الزامات کو اگر درست نہیںتو قطعی غلط بھی قرار نہیں دیا جاسکتا یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے نظام کی رگ رگ میں رچ بس جانے والی کرپشن نے زندگی کے ہر گوشے کومتاثر کیاہے ،اور ٹریفک اور موٹروے پولیس کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیاجاسکتا،لیکن اس حقیقت سے بھی روگردانی نہیں کی جاسکتی کہ ٹینکر ایسوسی ایشن کی جانب سے کی جانے والی حالیہ ہڑتال کا سبب محض یہ الزامات نہیں تھے جو انھوں نے دہرائے ہیں کیونکہ یہ صورت حال راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ سالہاسال سے یہ صورت حال موجود ہے ، اورآئل ٹینکر ایسوسی ایشن خود بھی بڑی حد تک اس صورتحال کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس دوران متعدد مرتبہ حکومت اور آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے درمیان جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیاہے مذاکرات ہوتے رہے ان مذاکرات کے ذریعے یقینا کسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا تھا، لیکن اس وقت آئل ٹینکر مالکان نے کبھی اس طرح کی شکایات نہیں کیں اور صرف کرائے میں اضافے کے مطالبے پر ہی زور دیاجاتا رہا۔یہاں سب سے اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ آئل ٹینکرمالکان کی جانب سے بار بار کی ہڑتالوں اور ملک کے عوام کو مشکلات اور مصائب میں مبتلا کرکے حکومت کو بلیک کرنے کے حربوں کے باوجود حکومت اور متعلقہ حکام نے کبھی بھی اس صورت حال کے مستقل حل اور ملک میں ہنگامی صورت حال میں بھی تیل کی بلا تعطل ترسیل اور فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کوئی متبادل نظام تیار کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی یہ صورت حال بلاشبہ انتہائی معنی خیز ہے اور اس سے دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے اس صورت حال کے پیش نظر بعض حلقوں کی جانب سے لگائے جانے والے یہ الزامات درست نظر آتے ہیں کہ تیل کمپنیوں کے ارباب اختیار اور آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے ارکان کی آپس میں ملی بھگت ہے جس کا اظہار جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے گزشتہ دنوں اوگرا کے چیئرپرسن نے بھی برملا کیاہے کہ اس ہڑتال کی پشت پر آئل کمپنیوں کا ہاتھ بھی معلوم ہوتاہے،حکومت کو چاہئے کہ اوگرا کے چیئر پرسن کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے ان شکوک کی تحقیقات کرائے اور ملک بھر میں تیل کی بلاتعطل ترسیل اور فراہمی کا موثر انتظام کیاجانا چاہئے اور حکومت کو بلیک میل کرکے قانون شکنی کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے والوں کی درپردہ حمایت اور اعانت کرنے والوںکو کٹہرے میں لانے میں تاخیر نہیںکرنی چاہئے۔ آج حکومت کو سیاسی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں ہڑتالیں اس کی رٹ کی کمزوری کی علامت سمجھی جارہی ہیں۔ سیاسی معاملات اپنی جگہ مگر حکومت کی انتظامی صلاحیت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ ہڑتالی کلچر کا خاتمہ ڈنگ ٹپائو رویے کے بجائے حکومت کی طرف سے بروقت اقدامات سے ممکن ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں