سیاست پاکستان میں، جوڑ توڑ لندن اور دبئی میں
شیئر کریں
٭ پاکستان کی سیاست کا مرکزان دنوں بھی دبئی بناہواہے،نوازشریف، آصف علی زرداری کے درمیان پاکستانی سیاست، الیکشن، نگراں سیٹ اپ اور دیگر امور پر تفصیلی ملاقاتیں جاری ہیں
٭سب سے پہلے 1958ء میں اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے لندن میں سکونت اختیار کی جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے لندن میں جاکر پناہ لی
٭نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی یہاں پر رہے، مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو والد کی پھانسی کے بعد یہاں سے چلے گئے، غلام مصطفی کھر بھی یہاں رہے
٭نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا،ایم کیو ایم کی سیاست کا محور لندن ہوگیا،کئی سیاسی رہنما بشمول نواز شریف لندن ملاقات کے لیے آئے
٭بے نظیر بھٹو نے 1997ء کے بعد ملک چھوڑا اور لندن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، نواز شریف اپنی جلاوطنی کے کچھ برس سعودی عرب سے لندن شفٹ ہوگئے
٭دوہزار اٹھارہ کے بعد شریف فیملی پر مشکل وقت آیا، تو شریف فیملی کے کئی ارکان لندن کی یاترا کرتے رہے، اب شریف فیملی کا مسکن لندن ہے، کئی اہم اجلاس لندن میں ہوچکے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دبئی پاکستانی سیاست کا مرکز بن گیا۔۔ سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دبئی میں پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات پر طویل بیٹھکیں جاری ہیں۔ نوازشریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، مریم نواز کی ملاقاتیں جاری ہیں اور توقع ہے کہ یہاں پاکستان میں الیکشن، نگراں وزیراعظم اور دیگر امور کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے۔ پاکستانی سیاست دان مختلف ادوار میں اہم ترین سیاسی فیصلے لندن یا دبئی میں بیٹھ کر کرتے آئے ہیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی دارالحکومت شروع سے ہی پاکستانی سیاست میں مختلف وجوہات کی بنا پر جلوہ گر رہا ہے۔ سب سے پہلے 1958ء میں اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے لندن میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں بڑے پیمانے پرسیاسی کارکنان جو لندن گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں سیاسی جبر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور رہنما مختار رانا وہاں پر گئے۔ اس کے علاوہ جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تو پیپلز پارٹی کے قائدین نے لندن میں جاکر پناہ لی۔ پی آئی اے کے ورکرز کو جب نکالا گیا، تو ان کی ایک بڑی تعداد بھی لندن گئی۔سینئرتجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان میں جب بھی کوئی مارشل لاء لگتا تھا یا حکومت تبدیل ہوتی تھی، تو وہ مخالفین پر جبر شروع کر دی تھی اور اس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو لندن کا رخ کرنا پڑا۔کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ صرف آمرانہ ادوار میں ہی نہیں ہوا بلکہ جمہوری دور میں بھی ایسا ہوا۔ بھٹو صاحب کے دور میں لندن پلان کی اصلاح استعمال کی گئی۔ حقیقتاً کچھ پاکستانی طلبا اور مزدور پاکستان واپس آکر ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن بھٹو صاحب کے دور میں اس پلان کی اصطلاح ایجاد ہوئی، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ کچھ بلوچ اور دوسرے رہنما پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی لندن پلان بھی بنایا ہے۔بعد میں اس میں بھارت کو بھی جوڑ دیا گیا۔ اور جب بھٹو کے دور میں عراقی سفارت خانے سے کچھ ہتھیار ملے، تو اس کو بھی اسی سازش سے جوڑ دیا گیا۔مبصرین کے خیال میں کچھ اور عوامل نے بھی لندن کو پاکستانی سیاست کا مرکز بنانے میں مدد دی۔ اس دور میں ویزے آسانی مل جاتے تھے کیوں کہ پاکستان دولت مشترکہ کا رکن تھا۔ پاکستان کے حاکم طبقات کے بہت سارے افراد نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی، تو ان کے پہلے سے ہی وہاں پر مراسم تھے۔ لندن کو سیاسی رہنما اس حوالے سے بھی پسند کرتے تھے کہ وہاں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی اچھی موجودگی بھی تھی، تو آپ اپنے پیغام کو بہتر انداز میں بین الاقوامی برادری تک پہنچا سکتے تھے۔لندن یا برطانیہ کے دوسرے علاقوں میں آ کر کئی نامور پاکستانی سیاسی شخصیات نے پناہ لی۔ نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی یہاں پر رہے۔ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پھر یہاں سے چلے گئے۔ اس کے علاوہ غلام مصطفی کھر، پنڈی سے پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی جاوید حکیم قریشی، لاہور سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سردار مظہر علی خان اور پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیئر حسن ڈار بھی لندن میں مقیم رہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر صحت امیر حیدر کاظمی، جام صادق علی، رانا شمیم احمد خان، جو پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی ا سپیکر تھے، وہ بھی یہاں پررہے۔
1988ء میں بینظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سارے سیاسی کارکنان ملک واپس آ گئے لیکن نوے کی دہائی میں سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم، جسے اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کہا جاتا تھا، کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا۔ پھر ایم کیو ایم کی سیاست کا محور لندن ہوگیا۔ کئی سیاسی رہنما بشمول نواز شریف لندن ایم کیو ایم کے رہنما سے ملاقات کے لئے آئے۔ نوے کی دہائی میں لندن سے ہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی کال دی جاتی تھی، جس نے سندھ کی شہری سیاست اور پاکستان کی معیشت کو بہت متاثر کیا۔جنرل مشرف کے دور میں جب ایم کیو ایم کو کو سیاسی عمل میں بھر پور حصہ لینے کی اجازت ملی، تو لندن ایک بار پھر بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ مشرف حکومت کے کئی ارکان نے ایم کیو ایم کے سربراہ سے ملاقات کی۔ تاہم اسی اثنا میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ پر جبر شدید ہوگیا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کئی رہنماؤں نے لندن میں سکونت اختیار کی۔ بے نظیر بھٹو نے 1997ء کے بعد ملک چھوڑا اور مشرف کے دور میں انہوں نے لندن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے کچھ برس سعودی عرب میں گزارے اور بعد میں وہ بھی لندن شفٹ ہوگئے اس دوران لندن میں میں آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے کئی اہم اجلاس ہوئے، جس میں محمود خان اچکزئی، عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور کئی دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر بھی یہیں دستخط کیے۔گوکہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو 2007 ء میں پاکستان واپس لوٹ گئے
لیکن نواز شریف کی فیملی کے کچھ ارکان نے لندن میں ہی سکونت اختیار کر لی اور 2018 ء کے بعد جب شریف فیملی پر مشکل وقت آیا، تو شریف فیملی کے کئی ارکان لندن کی یاترا کرتے رہے۔ اب شریف فیملی کا مسکن لندن ہے اور جب سے شہباز شریف اقتدار میں آئے ہیں پارٹی کے کئی اہم فیصلے اورکئی اہم اجلاس لندن میں ہی ہوئے ہیں۔
٭٭٭