روزے کا ثواب۔۔۔ اللہ اور بندے کا معاملہ
شیئر کریں
ماورا طلحہ
”روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا“الحدیث
رمضان کی اہمیت اور فضیلت اوپر دی گئی حدیث سے واضح ہو جاتی ہے۔ ہر نیکی کی مخصوص جزا ہے مگر روزے کا ثواب اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔ رمضان کی فضیلت کی گواہی سارا قرآن دیتا ہے۔ روزہ خالق اور مخلوق میں قربت کی ڈور پیدا کرتا ہے۔ قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا،اس رمضان میں ہی ایسی فضیلت والی رات ہے جس میں عبادت کا ثواب لامتناہی ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے بھوک اور پیاس ودیگر حلال چیزوں سے رکنے کا حکم دیا تو اس کے ساتھ اجر و کرم کی ایسی برسات کر دی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ قلم کی سیاہی ختم ہو سکتی ہے، قلم کار کے الفاظ کا ذخیرہ ماند پڑ سکتا ہے مگر رب ذوالجلال کے انعام و اکرام کی تفصیل بیان نہیں ہو سکتی۔احادیث میں بتایا گیا ہے کہ روزہ، روزے دار کی شفاعت کرے گا۔ روزہ گناہوں سے روکتا ہے،جنت کے آٹھ ابواب ہیں جن میں سے ایک کا نام ”باب الریان“ ہے،یہ دروازاہ خصوصاً روزے داروں کے لیے بنایا گیا ہے کہ روزے دار اسی راستے سے جنت میں داخل ہوگا۔ رمضان کے ایک روزے کو پانے کا اتنا ثواب ہے کہ ساری عمر کے روزے اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔یہاں بات کرنے کا مقصد رمضان کی فضیلت کو بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ ایک باشعور مسلمان رمضان اور صیام کی فضیلت سے آگاہی ضرور رکھتا ہے مگر یہ آگاہی صرف بھوک پیاس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری بھوک پیاس سے اللہ تعالی کو کوئی غرض نہیں کیونکہ وہ ذات دلوں کے حال سے واقف ہے۔”انماالاعمال باالنیات”
(اعمال کا دارومدار نیت پر ہے)اور خالق مخلوق کی شاہ رگ سے قریب ہو کر نیتوں سے آگاہی کیوں نہیں رکھ سکتا۔پیٹ پہ بھوک اور زبان پہ پیاس کے بند باندھنے کا نام صیام نہیں ہے، روزہ کی شرائط ہیں جن کے بغیر روزہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ روزہ اعضاءکا بھی ہے، روزہ ہاتھ کا بھی ہے،روزہ پاو¿ں، زبان، کان، ناک، آنکھ،جسم اور خیال کا بھی ہے۔ہمارے معاشرے میں حکمران طبقہ سے لے کر عام آدمی تک رمضان کی اصل روح سے آگاہی رکھنے کے باوجود بے عمل ہے۔آپ بھی سوچیں گے کہ حکمران کا ذکر اس سب میں کہاں سے آ گیا تو میں یہ بلاجھجھک کہوں گی کہ ہماری حکومت کی نامناسب کارکردگی نے عام آدمی کا رمضان بھی مشکل بنا دیا ہے۔ کھجور سے افطار سنت ہے مگرمہنگائی اور منافع خوری کے باعث وہ سنت بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے، رمضان میں عام اشیاءکی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ہماری روایات اور اقدار کو غیر مسلم نے اپنا لیا ہے۔ آپ غیر مسلموں کے کسی بھی تہوار پہ دیکھ لیں،ان کا کرسمس ہو یا کوئی اور موقع ہو، وہ عوام کو ریلیف دیتے ہیں اور بے حد دیتے ہیں مگر یہاں معاملہ سراسر الٹ ہے۔ ایسے مواقع پر ہمارے حکمرانوں کا نعرہ ہوتا ہے سانس پہ بھی ٹیکس لگا دو۔ ان حالات میں ہم قطعی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایک اسلامی معاشرے کے مروجہ اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم نے رمضان کو کاروبار بنا لیا ہے اور اپنی اس روش پہ پورے یقین سے قائم ہیں۔ اللہ تعالی سب کے لیے ہدایت کے در وا کریں اور ہمیں عبادات کی مکمل ادائیگی کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین۔