میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی حکمرانوں کے لےے نوشتہ ¿دیوار

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی حکمرانوں کے لےے نوشتہ ¿دیوار

ویب ڈیسک
منگل, ۲۸ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی میں اگلے دو ماہ کے لیے شرح سود 5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کردیا۔مرکزی بینک کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سپلائی سائیڈ پریشر میں کمی کی وجہ سے مہنگائی میں ہونے والے ممکنہ اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ میں تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک نے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کو نوٹ کیا جس کے باعث بہتر زرعی پیداوار، مصنوعات کے شعبے کی پیداوار میں اضافے اور پرائیویٹ سیکٹر میں اچھے نتائج کی توقع ہے۔اسٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں مالیاتی سال 2017ءمیں جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔بیان کے مطابق مالیاتی سال 2017ءمیں جولائی سے فروری کے دوران نجی شعبے کے کریڈٹ میں 349 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ سال صرف 267 ارب روپے تھا۔علاوہ ازیں اپنے بیان میں اسٹیٹ بینک نے معاشی سرگرمیوں میں ہونے والے اضافے کے سبب درآمدات میں اضافے کا بھی ذکر کیا جس کے نتیجے میںکرنٹ اکاو¿نٹ کا خسارہ ساڑھے 5 ارب ڈالر ہوگیا۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ قبل ازیں دوماہی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے خیال ظاہرکیاتھا کہ رواں برس مہنگائی کی شرح ہدف سے 6 فیصد کم رہنے کا امکان ہے۔
گورنراسٹیٹ بینک کے مطابق ملکی قرضوں کا مجموعی حجم 2 ہزار 80 ارب سے زائد ہے، اس سال کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 1 ارب 10 کروڑ ڈالرز ملنے تھے، جن کے نہ ملنے کے باعث مشکلات میں اضافہ ہوا۔ اس سے قبل اسٹیٹ بینک کے گورنر اشرف وتھرا نے پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے کے رجحان پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد حصہ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتا، پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کی تعداد خطے میں سب سے کم ہے۔
اشرف محمود وتھرا کے مطابق پاکستان اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے کے لیے قابل قبول اقدامات اٹھا رہا ہے کیوں کہ معاشی بہتری ایک بڑا اور قومی مفاد کا چیلنج ہے۔اسٹیٹ بینک کے گورنر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگوں کی جانب سے ٹیکس ادا نہ کرنے کے پیچھے مختلف وجوہات ہیں، ٹیکس ادائیگی سے بچنا ہمارے سماج کا حصہ بن چکا ہے اور یہ بات نسل در نسل ہمارے معاشرے میں منتقل ہوتی آ رہی ہے۔ جسے اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں بینک اکاﺅنٹس سے متعلق بات کرتے ہوئے اشرف وتھرا کا کہنا تھا کہ اس وقت بالغ افراد کا چوتھائی حصہ بینک اکاﺅنٹ ہولڈر ہے، اسٹیٹ بینک اکاﺅنٹ ہولڈرز کی تعداد 2020 ءتک دگنی کرنے کا خواہشمند ہے۔ ملک میں اس وقت 14 ہزار سے زائد بینک برانچز ہیں مگر یہ ناکافی ہیں۔اشرف محمود وتھرا کا کہنا تھا کہ ہم حالیہ کاروباری اور معاشی نظام پر انحصار نہیں کر سکتے، ہمیں اپنی برآمدات کو بہتر بنانا ہوگا، ہمیں ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو بہتر بنا کر اپنی مارکیٹ کے لیے نئے ممالک اور نئے خطوں کی تلاش کرنا ہوگی۔
اسٹیٹ بینک کی اس سے قبل جاری کی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاتھا کہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان میں افراط زر کی اوسط شرح 2.86 فیصد رہی جو گزشتہ 13 برس میں کم ترین ہے۔
مالی سال 2014-15ءمیں اوسط افراط زر 4.53فیصد تھا جبکہ 2013-14 میں 8.62 اور 2012-13 میں 7.36 فیصد تھا۔کنزیومر پرائس انڈیکس یا اشاریہ صارفی قیمت (سی پی آئی) جس کے تحت ہر ماہ ملک کے بڑے شہروں میں 481 اشیائے صرف کی قیمتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، اس کے مطابق مئی کے مقابلے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں جون میں معمولی اضافہ ہوا اور یہ 3.17 فیصد سے بڑھ کر 3.19 فیصد ہوگئی۔وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ محتاط مالی اور زری پالیسیوں کی وجہ سے افراط زر اور اس سے وابستہ دیگر عوامل کو اعتدال میں لانے میں مدد ملی۔
اسٹیٹ بینک کی ا س رپورٹ سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ حکومت نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین تک پہنچایا جس کی وجہ سے سی پی آئی میں شامل اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام آیا۔اس کے باوجود جن اشیاکی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں ٹماٹر 61 فیصد، آلو 45.5فیصد، انڈے 8.5 فیصد، تازہ سبزیاں 5.9 فیصد، چنا 5.7 فیصد، تازہ پھل 2.5 فیصد، بیسن 2.4 فیصد، دال 2.2 فیصد اور چاول 1.4 فیصد مہنگے ہوئے۔
اس سے ظاہرہوتاہے کہ اگرغیر مستقل قیمتوں کی حامل غذائی اجناس اور توانائی کی قیمتوں کو نکال دیا جائے تو بنیادی افراط زر کی شرح جون 2016 ءمیں 4.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ ماہ کی نسبت 0.1 فیصد زیادہ ہے۔افراط زر کی شرح میں کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی شرح سود 42 سال کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر لانا پڑی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کابغور جائزہ لیاجائے تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ وفاقی حکومت افراط زر پر کنٹرول کرنے اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکا م ثابت ہورہی ہے ،جس کی وجہ سے عوام اب مرغی کے گوشت اور سبزیاں استعمال کرنے سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔
حکومت کو اسٹیٹ بینک کی اس رپورٹ کو اپنے لیے نوشتہ دیوار تصور کرنا چاہیے ، حکمرانوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ کل انہیں اپنی یہی کارکردگی لے کر عوام کی عدالت میں جانا ہے، یہ صحیح ہے کہ حکمراںمختلف محکموںخاص طورپر پولیس میں لگائے گئے اپنے من پسند افسران اور اہلکاروں کے ذریعے انتخابات کے دوران کچھ فوائد حاصل کرنے اور اپنے مخالفین کو دبانے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن ایسا تمام حلقوں میں نہیں ہوسکے گااور عوام اگلے انتخابات میں ان کے کرتوتوں کی سزاانہیں مسترد کرکے دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں