میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بچے !ریچھ کی دھاڑ سنو!

بچے !ریچھ کی دھاڑ سنو!

ویب ڈیسک
پیر, ۲۸ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

مسلمانوںکی عظمتِ رفتہ کے قصوں سے جن کے پیٹوں میں مروڑ اٹھتی ہے، وہ یوکرین پر روسی حملے کو ذہنوں میں تازہ رکھیں۔
تیس برس ہوتے ہیں، سوویت یونین منہدم ہوگیا تھا۔ اس ملبے سے نکلنے والی ریاستیں ماضی کی اب بھی قیدی ہیں۔ ماضی کے یہ مزار، نوید ِ آئندہ بننا چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لیے خود میں ایک تابندگی بھی چاہئے۔کہاں ! وہ کہاں؟بیلا روس کی جس شکار گاہ میں سوویت یونین کے ٹوٹے پھوٹے اور لاغر حصے جمع ہو کر اپنا غم غلط کیے دے رہے تھے، یوکرین اس کا حصہ تھا، تب بیلاروس کے وزیراعظم اور یوکرینی صدر کو کب معلوم رہا ہوگا کہ وہ بورس یلسن کے ساتھ جس انہدامی دستاویز پر نشے میں دھت اتفاق کرتے ہیں ، تاریخ میں کیسے پلٹ کر وار کرے گی؟تب کا یہ حال، تیس برسوں بعد ماضی ہوگا، جسے پستول دکھانے پر مستقبل اُنہیں توپ کے نشانے پر لے گا۔ سوویت یونین کی تدفین ہوگئی، مگر اس کے اندر کا سرخ ریچھ زندہ ہے۔ ہاہا! لطف آگیا ، عالمی تنازعات کا تجزیہ نگار پیپی ایسکوبار لکھتا ہے:بچے اس ریچھ کی دھاڑ سنو!
سلطنتیں پھر آمادۂ جنگ ہیں۔ یوکرین تختۂ مشق پر مشقِ ستم ہے۔ پاکستان سے مشابہ ریاست یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، صدام حسین کی طرح استعمال کیے گئے۔ پہلے کی طرح پھر ثابت ہوا، امریکا کسی کا دوست نہیں۔ صدام حسین کو کویت میں مداخلت پر اُکسایا گیا، یہ نئے مشرقِ وسطیٰ کی ترتیب کا پورا کھیل تھا۔نیا کچھ بھی نہیں،کامیڈین یوکرینی صدر امریکی ”کامیڈی” کو سمجھ نہیں سکے۔ امریکا نے بحرالکاہل میں اگلے سو سال کے طویل غوطے کی تیاری شروع کردی ہے، جس کی لہریں بحرہند میں بھی اُٹھیں گی۔بدقسمتی یہ ہے کہ روس کی یوکرین میں مداخلت سب کو دکھائی دیتی ہے، مگر امریکا کی نہیں۔ امریکا یوکرین میں دخیل تھا، اُس کی مداخلت بہر نوع عسکری اہداف رکھتی ہیں۔ منصوبے صدر اُباما کے دور میں ترتیب دیے گئے ۔ چین کے خلاف سمندری محاصرہ اگلے عشروں کی سیاست کا ہدف ہے۔ روس، چین کا حلیف ہے۔ روس اپنی عظمت ِ رفتہ کے احساس میں مبتلا نئے ادوار میں چین کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایسے داخل ہونا چاہتا ہے، جس میں وہ معاشی استحکام کے ساتھ اپنے مضبوط عسکری حجم کی چھوی کی حفاظت بھی کرسکے۔ جنگیں اہداف دیکھتی ہیں، لاشیں نہیں۔
یوکرین کے ساحل سے روس سمندر میں رسائی پاتا ہے،جو اُس کے معاشی معاملات کو یورپ بھر میں وسعت دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ روس چین اتحاد سے اس کے ثمرات چین کی جھولی میں بھی گرتے ہیں۔ امریکا اگلی صدی بحرِ ہند کے ساتھ اسی سمندر میں عسکری اور معاشی اہداف کے ساتھ منصوبہ بند کرچکا ہے۔ یوکرین میں ایک مستقل جنگی ہیجان امریکا کا اصل ہدف ہے۔ یہ چند روزہ کھیل نہیں۔ یہاں مزاحمت اور مدافعت کے مستقل محاذ ترتیب پارہے ہیں۔ اگرچہ روس کا ہدف ایک نئی حکومت کے قیام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانا ہے، مگر نہیں ، امریکی امداد امن کی خاطر نہیں، جنگی اہداف کے لیے ہوتی ہے۔ اگر اس نکتے کو کھرل کرنا ہے تو دوبارہ ٹٹولیں امریکا نے کیا کیا ہے؟سب سے پہلے یوکرین میں روس کی حامی حکومت کو ختم کرایا۔ مداخلت تب ہی شروع ہوگئی تھی۔ امریکا نے 2014ء میں روس حامی یوکرینی صدر وکٹر ینوکووچ کا گھیرا تنگ کرکے اُسے ایک عوامی تحریک میں انتشار کی طاقت سے چلتا کیا۔ تب تک امریکا یوکرین کی سرحد سے متصل تین ریاستوں لیتھیوانیا ،رومانیہ اور پولینڈ میں اپنے ہتھیار نصب اور اپنی فوجیں تعینات کرچکا تھا۔(یاد رکھیں 2014ء ہی وہ سال تھا جب امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا پہلی مرتبہ اعلان کیا تھا)۔ روس نے بھی اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر تب کریمیا کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ اگر چہ 2015ء میں یوکرین میں متحارب گروہوں کے درمیان ایک معاہدہ کرالیا گیا تھا، مگر کریمیا کو کنٹرول میں لیے جانے کے بعد یوکرین میں جو خانہ جنگی مہمیز ہوئی ، وہ پندرہ ہزار جانوں کو نگل کر بھی کسی نہ کسی شکل میں تاحال جاری ہے۔ امریکا نے مگر یوکرین میں ایک ایسی حکومت قائم کرلی تھی جو مکمل طور پر روس کی طرف پشت کرکے امریکا اور یورپ کی طرف دیکھتی تھی۔
ماضی میں ایک کامیڈی اداکار کے طور پر معروف موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اس کھیل کو نہیں سمجھ سکے جو اُنہیں صدام حسین بنانے کے لیے کھیلا گیا۔ وہ روسوفوبیا کے شکار ہوئے۔ ابھی چند روز قبل وہ روس مخالف میونخ سیکورٹی کانفرنس (18تا20فروری)سے لوٹے تھے، جہاں اُنہیں ایک مسیحا کی طرح سراہا گیا۔ یاد ش بخیر! سوویت یونین کے خلا ف افغانستان میں مزاحمت کرنے والے مجاہدین کو تب امریکی آزادی کے ہیروز کی مانند قرار دیا گیا تھا۔ کامیڈین یوکرینی صدر اپنے ساتھ ہونے والی اس کامیڈی پر ہنس بھی نہ سکے۔ واپس لوٹے تو واقعی خود کو ایک مسیحا کے روپ میں سمجھنے لگے۔ کانفرنس میں اُنہیں اس مغالطے سے بھی آلودہ کردیا گیا کہ 1994 کے بڈاپیسٹ میمورنڈم پر نظر ثانی کرکے یوکرین کو جوہری ہتھیاروں سے واپس لیس کیا جائے ۔ ولادیمیر زیلنسکی کا دماغ تو خراب ہونا ہی تھا۔ یوکرائن کے پاس 1992ء میںسوویت یونین سے علیحدگی کے وقت دنیا کا تیسرا بڑا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا، جس سے دستبردار کرانے کے لیے یوکرین کو مستقبل میں کسی حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ امریکا نے کب وعدوں کی پروا کی ہے؟
امریکا کے پاس یوکرین کے لیے معاشی اور عسکری امداد ہے، مگر یہ جنگ یوکرین کو خود ہی لڑنی ہے۔ جس کے جلد اختتام کی کوئی ضمانت نہیں۔ امریکا کے تیور واضح ہیں۔ امریکا یوکرین کی جنگ کی کرکٹ میچ کی طرح کمنٹری کررہا ہے۔ جمعہ کے روز اُس نے بتایا روس کیف پر اتوار کے روز قبضہ کرلے گا۔ امریکا نے کسی عسکری امداد کے بجائے تب یوکرینی صدر کو پیشکش کی کہ اُنہیں کیف سے نکالنے میں امریکا مدد دے سکتا ہے۔ ولادیمیر زیلنسکی پھر کامیڈی پر مسکرانے کے بجائے سنجیدہ ہو گئے۔ وہ بولے: مجھے کیف سے بھاگنے کے لیے سواری نہیں، لڑنے کے لیے اسلحہ چاہئے”۔ یوں لگتا ہے کہ اس بیچارے کو امریکی تاریخ پڑھنے کا کوئی موقع نہیں ملا۔ یہ موازنہ بھی تاریخ میں ہمیشہ کیا جائے گاکہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کی کابل پر دستک کے ساتھ ہی بھاگ کر اچھا کیا تھا یا پھر یوکرینی صدر نے کیف میں رہنے کو ترجیح دے کر بہتر کیا؟ہو سکتا ہے کہ ولادیمیر زیلنسکی کے انجام سے اشرف غنی کے فرار کو کچھ آبرو مل جائے؟ یا پھر ولا دیمرزیلنسکی کے بعد اشرف غنی کا اقدام د زیادہ گھناؤنا محسوس ہو۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اشرف غنی طالبان کو جتنا جانتے تھے، اُس سے کہیں زیادہ اپنے آقا امریکی کردار کو سمجھتے تھے، جو کسبی کی حیا رکھتا ہے۔
امریکا نے کچھ زیادہ ابھی تک نہیں کیا۔ یوکرینی صدر کا اچھا خاصا دماغ خراب کردیا۔ روس کو جنگ میں دھکیلا۔ یوکرین کے حالات سے یورپ میں جس جنگی ہیجان کو پیدا کرنا مقصود تھا، وہ کردیا۔اس جنگ کی آڑ میں بحرالکاہل میں جہاں جہاں اسلحہ پہنچانا تھا، پہنچا دیا۔ امریکا یوکرین کے موجودہ حالات کو ابھی جوں کا توں رکھنا چاہتا ہے، مگر روس نہیں۔ اُسے ایک مضبوط معیشت چاہئے جو فی الحال کسی طویل جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ وہ کیف پر مکمل قبضے کے بعد ایک نئی حکومت کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرے گا۔ یوکرین کے موجودہ حالات بحرالکاہل کے مقاصد سے اُسے دور کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔پھر بھی ریچھ نے دھاڑتے ہوئے واضح کیا کہ اُسے سرخ رنگ اب بھی بہت پسند ہے۔ دارالحکومت پر قبضے میںذرا دیر ہوسکتی ہے۔ مگر روسی حملے حکومت کی تبدیلی اور اہداف کی تکمیل تک جاری رہیں گے۔ روسی افواج اپنی سرحد سے بیس کلومیٹر جنوب میں واقع یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہوچکی ہے۔ جہاں وہ داخل ہونے سے قبل مضافاتی علاقوں میں اتوار تک انتظار کرتے رہے، روس کا پیغام واضح ہے، انتظار کیا جاسکتا ہے، مگر اہداف چھوڑے نہیں جاسکتے۔ روس جو کچھ کررہا ہے، وہی کچھ اسرائیل شام میں معمول کے مطابق کرتا ہے۔ امریکا، نیٹو اور مغربی ممالک کو شام میں صبح شام اسرائیلی بمباری ”حملہ” نہیں لگتی۔ مغربی کارپوریٹ ذرائع ابلاغ نے مگر روس کے ابتدائی اقدام کو ”جنگ” اور ”حملہ” قرار دیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے یہ بھی پوچھ لینا چاہئے کہ یمنی شہریوں پر سعودی عرب کیا کررہا ہے؟ امریکا کو علاقائی خودمختاری پر بھونکتے ہوئے پہلے یہ بتانا چاہئے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے کب باہر نکلے گا؟ شام سے واپسی کا منصوبہ کیا ہے؟ کیا بحرالکاہل اور بحر ہند میں سمندری محاصرے علاقائی خودمختاری کو خطرے میں ڈالتے ہیں؟
یہ نئے عسکری منصوبوں کے ساتھ طلوع ہونے والانیا دور ہے۔ جس میں معاشی تسلط کا خواب سمندری راستوں پر حریف ملکوں کی کڑی نگرانی سے ہوگا۔ ریچھ نے اپنے مفادات پر پہرا دینا شروع کردیا ہے۔ امریکا اس کھیل میں ہمیشہ سفاک رہا ہے۔ یوکرین ، نیا افغانستان ہے۔جو سرد جنگ کے بعد کی دنیا کی پوری تشکیل کو تہ و بالا کرسکتا ہے۔ ابھی تو روسی حملے سے پہلے یوکرین نے دو جڑواں بچے دونتسک اور لوہانسک جنم دیے ہیں۔ دنیا کے نقشے میں مزید اُتھل پتھل کی ابھی بہت گنجائش ہے۔ بچے!ریچھ کی دھاڑ سنو!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں