میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کس لانگ مارچ میں ،کتنا ہے دم؟

کس لانگ مارچ میں ،کتنا ہے دم؟

ویب ڈیسک
پیر, ۲۸ فروری ۲۰۲۲

شیئر کریں

جمہوری نظام میں اپوزیشن جماعتوں کا حکومتِ وقت کی پالیسیوں کے خلاف پراَمن احتجاج کرنا ایک معمول کا سیاسی واقعہ سمجھا جاتاہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اپوزیشن کے احتجاج اور مظاہروں کے جواب میں حکومت کی جانب سے کبھی بھی عوامی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کی ’’سیاسی غلطی ‘‘نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اگرکسی اپوزیشن جماعت کے سیاسی احتجاج کے جواب میں حکومتی جماعت بھی عوامی احتجاج کی روش کو اپنی عادتِ ثانیہ بنالے تو پھر سیاسی تصادم کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے سیاسی تصادم کی فضا کا پیدا ہونا کسی بھی صورت مناسب اور نیک شگون نہیں ثابت نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے جمہوریت میں اپوزیشن جماعتیں بار بار احتجاج کرتی ہیں اور حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ہر بار، مذاکرات کر کے کچھ اور کچھ دو کی بنیادپر اُنہیں اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے کرتے اپنی مدتِ اقتدار پوری کرلیتی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی کم و بیش تمام جمہوری حکومتیں طویل عرصہ تک اِسی جمہوری اُصول پر سختی سے عمل پیرا رہی ہیں ۔مگر اَب لگتا ہے کہ یہ جمہوری اُصول بھی سیاست کی نذر ہونے جارہا ہے کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے جس دن پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف کراچی سے اسلام آباد عوامی لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا، اگلے روز ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما علی زیدی نے سندھ حکومت کے خلاف گھوٹکی سے کراچی تک سندھ حقوق مارچ کرنے کا اعلان کردیاتھا۔
اَب صورت حال کچھ یوں بن رہی ہے کہ پیپلزپارٹی کا حکومت مخالف عوامی لانگ مارچ کراچی سے 10 دن میں ملک کے 34 مختلف شہروں سے گزرتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں مارچ کا آغاز کراچی میں مزار قائد سے اتوار 27 فروری کو صبح 10 بجے ہو چکا ہے اور اَب یہ حکومت مخالف لانگ مارچ براستہ ٹھٹھہ اور سجاول سے ہوتا ہوا بدین پہنچے گا ،یہ مارچ کے پہلے پڑاؤکا اختتام ہوگا۔ عوامی مارچ دوسرے روز 28 فروری کو حیدرآباد، ہالا، نواب شاہ سے ہوتا ہوا مورو پر ختم ہوگا، یکم مارچ کو عوامی مارچ مورو سے خیرپور شہر پہنچے گا جہاں سکھر میں تیسرے دن کا اختتام ہوگا۔جبکہ 2 مارچ کو لانگ مارچ کا آغاز سکھر سے شروع ہو کر گھوٹکی سے ہوتا ہوا رحیم یار خان پہنچے گا اوریہ احتجاجی مارچ پنجاب سے گزرتا ہوا ،8 یا 9 مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ جائے گا۔
لیکن سندھ کے باسیوں کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سندھ کی سڑکوں پر جب تک پیپلزپارٹی کا حکومت مخالف عوامی مارچ موجود رہے گا ، اُس وقت تک، تحریک انصاف کے سندھ حقوق مارچ کے ساتھ اس کے تصادم ہونے کے خدشات بھی برقرار رہیں گے۔ کیونکہ سندھ کے جن شہروں اور عوامی مقامات سے پیپلزپارٹی کے عوامی مارچ نے گزرنا ہے، تھوڑے بہت وقت اور فاصلے کے فرق کے ساتھ تحریک انصاف نے بھی اپنے سندھ حقوق مارچ کے لیے وہی راستہ اختیار کیا ہے۔ اسی لیے بعض سیاسی تجزیہ کاروں کو اندیشہ لاحق ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں اور سیاسی کارکنان کے درمیان پائی جانے والی سیاسی نفرت اور عداوت کسی بھی وقت دونوں جماعتوں کے درمیان بڑے سیاسی تصادم کا سبب بن سکتی ہے ۔
اُصولی طور پر ہوناتو یہ ہی چاہیئے تھا کہ اگر پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف عوامی مارچ کے لیے اپنا رختِ سفر باندھ چکی ہے تو تحریک انصاف کی سندھ کی قیادت کو سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف سندھ حقوق مارچ کرنے کے لیے کسی ایسے مناسب وقت کا انتخاب کرنا چاہئے تھا ،جب پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ کم ازکم صوبہ سندھ کی حدود سے بحفاظت گزر کر صوبہ پنجاب کی حدود میں داخل ہوجاتا، تاکہ سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کسی بھی قسم کے تصادم کے امکانات اور خدشات سرے سے پیدا ہی نہیں ہوپاتے۔
دوسری جانب بیک وقت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے احتجاجی مارچ کا نکلنا،بلاشبہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی انتظامی صلاحیتوں کا بھی کڑا امتحان ہے۔کیونکہ جہاں وزیراعلیٰ سندھ کو اپنی سیاسی جماعت کے عوامی مارچ کو دامے، ورمے ،سخنے انتظامی مدد فراہم کرنے کا چیلنج درپیش ہے ،وہاں اُنہیں تحریک انصاف کے پیپلزپارٹی مخالف سندھ حقوق مارچ کی حفاظت کا بھی بندوبست کرنا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ نے سیاسی غیر جانب داری سے کام لیتے ہوئے دونوں احتجاجی مارچ سے ایک جیسے انداز میں نمٹنے کی کوشش کی تو پھر اُن کے اِس مشکل امتحان میں سرخرو ہونے کے امکانات خوب روشن ہو جائیں گے۔ نیز سندھ حکومت کی غیر جانب داری سے سندھ میں ممکنہ سیاسی تصادم کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔
لیکن یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی رہنما بھی پیپلزپارٹی کے خلاف نکالنے جانے لانگ مارچ کو پرامن رکھنے کے لیے اپنا کردار، احسن طور پر ادا کریں ۔ اگرچہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے مگر پھر بھی چونکہ صوبہ سندھ میں حکومت، پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے ، اس لیے زیادہ ذمہ داری اور سیاسی بالغ نظری کا ثبوت پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ہی دینا چاہئے۔ہماری رائے میں سندھ حکومت کے اہم ذمہ داروں کو فوری طور پر تحریک انصاف سندھ کی قیادت کے ساتھ سے مذاکرات کا آغاز کردینا چاہیئے ۔تاکہ دونوں جماعتوں کے سیاسی کارکنان میں اپنے اپنے لانگ مارچ کی کامیابی کو لے کر جو کشیدگی پیدا ہوچکی ہے ،اُس میں خاطر خواہ کمی واقع ہوسکے۔
اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے توسندھ کا سیاسی منظرنامہ عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہے یعنی ایک لانگ مارچ کے شرکاء تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے نکلے ہوئے اور دوسرے لانگ مارچ کے سیاسی کارکنان کا ہدف سندھ حکومت کو ختم کرنا ہے۔ بہرکیف آنے والے چند دنوں میں فیصلہ ہوجائے گا کہ کس سیاسی جماعت کا لانگ مارچ نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے اورکس جماعت کا لانگ مارچ فلاپ ہوتاہے اور خدانخواستہ اگر دونوں جماعتوں کے عوامی لانگ مارچ ناکام و نامراد رہے تو پھر کیا ہوگا؟۔کاش اِس بابت بھی دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ایک بار سوچ لیتی تو جمہوریت کے لیے کتنا اچھا ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں