میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معاشرے میں ہر سو پھلے ناسور

معاشرے میں ہر سو پھلے ناسور

منتظم
اتوار, ۷ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

کیا جو شخص ملازمت کے دوران اپنا کام درست طور پرنہیں کرتا اور عوام سے رشوت لیتا ہے یا دفتر جانے کی بجاے گھر میں سویا رہتا ہے اور اگلے دن دفتر جاکر حاضری لگا دیتا ہے۔ کیا اُسے معاشرے کا ناسور نہیں کہا جاے گا؟کیا جو شخص اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کرتا ہے وہ معاشرے کا ناسور ہے یا نہیں۔؟جو ڈاکڑ مریضوں کو اپنے میڈیکل ا سٹور سے اپنی ہی تیار کردہ ادویات اصل لاگت سے کئی گُنا تک منافع کے ساتھ فروخت کرتا ہے کیا وہ معاشرے کا ناسور نہیں ۔ کیا ایسا ڈاکٹر جو ادویات کی کمپنیوں سے بطور رشوت گاڑیاںلیتا ہے بیرون ملک کی سیریں کرتا ہے کیا وہ معاشرے کا ناسور نہیں؟۔کیا جو وکیل فیس لے کر بھی اپنے کلائنٹ کے ا مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے اور حرام کھاتا ہے کیا وہ معاشرے کا ناسور نہیں ہے؟کیا ناجائز منافع خور معاشرے کے ناسور نہیں ہیں؟کیا جو اُستاد ٹیوشن کے لالچ میں اپنے شاگردوں کو سرکاری ڈیوٹی میں درست کام نہیں کرواتا کیا وہ معاشرے کا ناسور نہیں ہے۔ کیا یہ نام نہاد ڈبہ پیر، کالے پیلے جادو گرعوام کو مذہب اور روحانیت کے نام پر لوٹنے والے معاشرے کے ناسور نہیں ہیں۔کیا وہ حکمران جن کی جایدادیں بے شمار اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ایسے حکمران معاشرے کے ناسور نہیں ہیں۔؟کسی کی عظمت بڑی گاڑی میں ۔ کسی کی عظمت لمبے چوڑے دستر خوان میں۔ کوئی حاکم وقت کے تلوے چاٹ کر پھولے نہیں سما رہا ہوتا جیسے کہ اُسے کوئی گوہر نایاب مل گیا ہو۔کسی کی شان بنک بیلنس میں پنہاں۔ کوئی جھوٹی آن شان کے لیے بے غیرتی کی حد تک چلا جاتا ہے اور اپنے عزت کو نیلام ہوتے ہوے بھی اُسے کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ بڑے مرتبے کے حامل افراد کی پذیرائی میں فخر محسوس کرتا ہے۔کتنی زندگی ہے انسان کے پاس اوسطاً پچاس سال ایک سال میں تین سو پینسٹھ دن۔ کُل 18250اِس میں سے عام طورا سکول کالج یونیورسٹی میں بایس سال گذر جاتے ہیں۔اِس طرح پچاس سالوں میں سے اگر بایس سال نکال دیے جایں تو پھر18250 میںسے8030 دن مائنس کرنا پڑیں گے۔باقی10220 دن بنتے ہیں۔اِس میں سے بیماری، سفر کاروباری ملازمت کی مصروفیات کو دیکھ لیں۔اتنی تھوڑی زندگی کے لیے۔ جھوٹ، عزت کی نیلامی،ایمان کا فروخت کرنا۔کیا یہ سب کچھ انسانیت ہے؟۔

مقدس ترین مہینے رمضان المبارک میں حکومتی گڈ گورنس صرف میڈیا تک ہی محدود رہی۔ جو پھل پچاس روپے کا تھا اُسی کوالٹی کا پھل ایک سو بیس روپے تک پہنچا ہوا تھا۔جس سبزی کی قیمت تیس روپے تھی وہ سو روپے تک جا پہنچی تھی۔ لاہور میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ حکومت نام کی کوئی شے نہیں۔ اخبارات ٹی وی چینلز میں حکومتی مشینری تصاویرں بنو ا بنوا کر خوش ہورہی تھی اور خادم اعلیٰ تک نوکرشاہی کا یہ پیغام پہنچ رہا تھا کہ سب کچھ بہت اچھا ہے ۔ افراط زر کنٹرول ہوچکا ہے۔ لوگ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ہر گھر میں چولہا جل رہا ہے ۔ لیکن حقیقت حال اِس بیوروکریسی نے خادم اعلیٰ تک پہنچنے ہی نہیں دی۔ لاہور میں تجاوزات کی بھر مار قیمتوں کی حالت یہ کہ اُن کو کنٹرول کرنا تو درکنار دکانداروں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔ مجسٹریٹ حضرات جرمانے کرنے کی خبریں اخبارارت میں لگواتے ہیں اور جن دکانداروں کو جرمانے ہوتے ہیں پولیس اُن کا ساتھ مک مُکا کر لیتی ہے اور اُن کو تھانے میں بند کرنے کی بجاے سیدھا مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرواکرضمانت کروادیتی ہے۔ گویا پولیس مستعد ی کے ساتھ منافع خوروں کو پشت پناہی کر رہی ہے۔طلب اور رسد کی بات نہیں ۔ بات خالص نیت کی ہے۔ قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی بناء پر ہی ہوتا ہے لیکن سرمایہ درانہ نظام کے پجاری یہ سُن لیں کہ اشیاے خورد ونوش کے معاملے میں فری مارکیت اکانومی میں بھی حکومت مداخلت کرتی ہے تاکہ اشیاے خوردنوش سب کی پہنچ میں رہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بیوروکریسی نے عوام کو بھرکس نکال دیا ہے خادم عالیٰ کو سب اچھا ہے کہ رپورٹ ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قیمتوں میں ہوشروبا اضافہ۔ المیہ تو یہ ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرنے کی بجاے اسے بطور کمائی کا سیزن بنادیا گیا ہے۔ایک دن صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں اگر گزارا جاے تو کیا کچھ آشکار ہوتا ہے اور پتہ چل جاتا ہے معاشرے کے اصلی ناسور کہاں کہاں ہیں۔ میری اِس تحریر کا مقصد صرف اور صرف عوام کی آگاہی ہے۔

اِس ساری تحریر کا مقصد عدالتِ حضور کی کسی طور بھی بھی کوئی عزت میں کمی نہیں ہے۔ میری تحریر کا مقصد صرف نظام کی خرابیوں کو نمایا ں کرنا ہے۔ آئیے عدالت کا وقت ہو چکا ہے۔عدالت کی کاروائی کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے کیا گیا ہے ایک عدالتی اہلکار نے قران مجید کی تلاوت کی۔ سب سے سے پہلے رٹ لگی ہوئی ہیں عدالتی اہلکار نے آواز لگائی تو رٹ میں پیش ہونے والا سائل شکل و صورت سے انتہائی غریب دکھائی دیتا ہے اِس کے پاؤں میں جوتی ٹوٹی ہوئی ہے۔انتہائی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص برسوں کا بیمار دکھائی دیتا ہے۔ سائل کے وکیل نے عرض کی کہ جناب اِس کی بیوی کو فلاں شخص نے اغوا کر لیا ہے اور پولیس بھی اُس نے اپنے ساتھ ملائی ہوئی ہے۔ جناب والا اِس شخص کی بیوی کو برآمد کروایا جاے۔جج صاحب نے آرڈر کیا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو کہ وہ اِس کی بیوی کو برآمد کرواکر عدالت میں پیش کرے اور ایک ہفتے کی تاریخ مقرر فرما دی۔سائل ایک ہفتے کے انتظار میں سولی پر لٹکنے کے لیے تیار تھا۔؎

اِسی طرح ایک اور کیس کے لیے آواز دی تو سائلہ نے رٹ دائر کی تھی کہ جناب میرے شوہر نے بچے چھین لیے ہیں مجھے وہ بچے بازیاب کرواکر دئیے جائیں، اِس رٹ میں بھی جج صاحب نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو آرڈر کیا کہ بچے بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیے جائیں۔سائلہ جس نے یہ رٹ دائر کی تھی وہ کسی کے گھر کام کرتی تھی اور غربت اُس کے چہرے پر منحوس ساے کی طرح موجود تھی عدالت نے دو ہفتے کی تاریخ مقرر فرمادی۔بعد ازاں ایک اور کیس میں جو سائل پیش ہوا وہ کوئی مزدور تھا جس نے کہا کہ اُس کے مالک نے اُس کو اغوا کروادیا تھا اور چھ ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی۔ عدالتِ حضور نے متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا کہ وہ تفتیش کرے اور مقدمہ درج کرکے تفتیش سے آگاہ کرے۔ اِس کیس کی بھی تین ہفتے کی تاریخ پڑ گئی اِس کیس میں سائل دیکھنے میں عام سا دیہاتی دکھائی دیتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُس نے کئی روز سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں اور کپڑے اُس کے ایسے تھے جیسے کسی مزار کی چادر سے بناے گے ہوں۔اِسی طرح قتل کے کیس میں ضمانت کے لیے درخواست لگی تو ایک انتہائی بزرگ سفید داڑھی کے ساتھ غربت و عُسر ت کی تصویر بنے عدالت میں موجود تھا۔ اِس کا بیٹا جو کہ مزدوری کرتا تھا وہ کسی قتل کے کیس میں جیل میں تھا۔ عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اور تیں ہفتے بعد کی تاریخ مقرر فرمادی۔

متذکرہ بالا عدالتی کاروائی کا حال اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ (1) مقدمہ بازی میں سب سے زیادہ لوگ جو پڑے ہوے ہیں وہ انتہائی غریب ہیں (2) دوسری بہت بڑی وجہ جو دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے تعلیمی پسماندگی) (3 دین پر ایمان صرف زبانی کلامی، عمل نام کی کوئی شے نہیں (4) نتیجتا معاشرے کا سماجی معاشی عمرانی نفسیاتی رویہ انتہائی ہوس زدہ۔مجھے کریمنل کورٹ میں امیر تو دور کی بات وسط درجے کے سائل بھی نظر نہیں آے۔ معاشرے میں تعلیم کی کمی بہت بڑا ظلم ہے، اِس لیے ملک کے دانشور طبقے کو چاہیے کہ وہ حکمرانوں کو باور کروائیں کہ تعلیم عام کرنے سے معاشرہ بہت بہتر ہوسکتا ہے ورنہ آبادی کے پھیلاؤ سے غربت میں بہت تیزی سے مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور امن امان کی صورتحال کا بہتر نہ ہونا۔ چوری ڈاکے لوٹ مار، اِن سب کے پیچھے ایک محرک بہت اہم جو ہے وہ توتعلیم کا نہ ہونا ہے۔اور محرکات بھی ہوسکتے ہیں اور ہیں لیکن تعلیم بہت ضروری ہے۔ملک کا بہت بڑا پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ہماشرے میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان نے بنیادی یونٹ گھر کو تباہ کردیا ہے۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں