کلبھوشن یادیو سے اس کی اہلیہ اور ماں کی ملاقات
شیئر کریں
فوجی عدالت سے سزا یافتہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق رکھنے والے جاسوس کلبھوشن یادیو نے دفتر خارجہ میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ اور دفترخارجہ کی ڈائریکٹر انڈین ڈیسک ڈاکٹر فریحہ بگٹی کی موجودگی میں اپنی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کی۔بھارتی جاسوس کے اہلخانہ کو سخت سیکورٹی میں بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بھارتی ہائی کمیشن پہنچا یا گیا تھا،جہاں انہیں بھارتی ہائی کمیشن کے حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی بعدِ ازاں انہیں دفترِ خارجہ پہنچایا گیا۔کلبھوشن یادیو اس وقت اپنی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے دوران بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ اور دفترخارجہ کی ڈائریکٹر انڈین ڈیسک ڈاکٹر فریحہ بگٹی سمیت دفتر خارجہ کا ایک اور افسر موجود تھا جس کا نام سامنے نہیں آسکا۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر ملاقات میں موجود رہے لیکن انہیں کلبھوشن یادیو سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
پاکستان نے بھارت سے 10 نومبر کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے گرفتار افسر کلبھوشن یادیو کی اہلیہ سے اس کی ملاقات کرانے کی پیش کش کی تھی۔گزشتہ ماہ 18 نومبر کو بھارت کی جانب سے پاکستان کو اس پیشکش پر جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا ’انسانی حقوق کی بنیاد پر کلبھوشن کی والدہ بھی اپنے بیٹے سے ملاقات کی حق دار ہیں اس لیے پاکستان پہلے والدہ کو ویزہ فراہم کرے جن کی درخواست پاکستانی ہائی کمیشن کے پاس موجود ہے‘۔بعدِ ازاں 24 نومبر کو یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ بھارت کلبھوشن یادیو سے ملاقات کے لیے ان کی اہلیہ کے ہمراہ اپنے ایک اہلکار کو بھیجنا چاہتا ہے۔ بھارت کی جانب سے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی حاصل کرنے کے لیے 15 مرتبہ پاکستانی دفتر خارجہ سے درخواست کی گئی اور ہر مرتبہ پاکستان نے اس درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ بھارت نے پاکستان سے کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ سے ان کے دورے پر سوالات یا ہراساں نہ کیے جانے کی ضمانت بھی طلب کی تھی۔پاکستان نے بھارت سے کلبھوشن یادیو کے اہلخانہ کی معلومات طلب کیں تاہم نئی دہلی کی جانب سے معلومات فراہم نہیں کی گئیں اوریہ بتانے سے بھی گریز کیاگیا کہ وہ کب اور کس فلائٹ کے ذریعے وہ اسلام آباد پہنچیں گے۔جس پر ذرائع کے مطابق پاکستان نے معلومات کی فراہمی کیلیے ہفتہ کی رات تک کی حتمی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے بھارتی ہائی کمیشن کو مطلع کیا تھا کہ اگر ہفتہ23 دسمبر کی رات تک مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو 25 دسمبر کو کلبھوشن کی اس کے اہلخانہ سے ملاقات کرانا مشکل ہوجائے گا۔جس پر 23 دسمبر کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے والدہ اور اہلیہ کی ملاقات کے حوالے سے پاکستان کو بھارت کی جانب سے معلومات فراہم کردی گئیں تھیں اور پاکستانی حکام کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ کو 24 سے 26 دسمبر کے ویزے جاری کیے گئے تھے۔ویزے صرف اسلام آباد کیلیے جاری کیے گئے جبکہ کلبھوشن سے ان کی ملاقات کا دورانیہ 15 منٹ سے ایک گھنٹے کے درمیان رکھا گیا۔
بھارتی خفیہ ادارے را کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیاتھا۔بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ اسے را کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاڑ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی فوجی عدالت نے رواں سال اپریل میں دہشت گردی اور جاسوسی کے جرائم میں سزائے موت سنا دی تھی جس کی توثیق پاک فوج کے سربراہ نے کی تھی۔رواں برس 10 مئی کو بھارت نے ’را‘ کے جاسوس کو سزائے موت سنانے کا معاملہ عالمی عدالت انصاف آئی سی جے میں لے جانے کا فیصلہ کیا اور عالمی عدالت سے اس کیس کو ہنگامی نوعیت کا قرار دے کر اس پر فوری سماعت کے لیے درخواست کی۔بعدِ ازاں 18 مئی کو آئی سی جے نے بھارت کی اپیل پر عبوری فیصلہ سنایا اور حکم امتناع جاری کرتے ہوئے پاکستان کو ہدایت کی کہ اس کیس میں عبوری فیصلہ آنے تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد سے روک دیا جائے جبکہ یہ کیس عالمی عدالت میں اب بھی زیر التوا ہے۔
موجودہ دور میں جہاں ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے دوبدو جنگوں کے امکانات کم ہوئے ہیں وہیں ’’پراکسی وارز‘‘ کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اسی بات کے مدنظر اس پاک دھرتی پر بہت سے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ناپاک عزائم لیے ہماری اندرونی لڑائیوں کو مہمیز کرکے اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہیں۔ را کے لیے کام کرنے والا بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیواس کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان عسکری لحاظ سے ناقابل تسخیر ہے جس کی وجہ سے دشمن نے بھی کھل کر سامنے آنے کے بجائے چوری چھپے وار کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے جس کی بڑی مثال کلبھوشن جیسا دہشت گرد ہے۔چونکہ نام نہاد سیکولر بھارت چانکیائی سیاست ہی پر عمل پیرا ہے اس لیے بھارت اپنے تمام ریاستی اداروں بشمول میڈیا کے ساتھ مل کر آئے روز نت نئے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں مصروف رہتا ہے۔جیسا کہ حال ہی میں امریکہ، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ میں آزاد بلوچستان کا ’’بھارتی اسپانسرڈ‘‘ شوشہ چھوڑا گیا حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی کوئی مقامی آواز نہیں۔یہاں پر دشمن کی عیاری و مکاری کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی ناہلی بھی سامنے آتی ہے کہ نہ تو ہم سفارتی سطح پر اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کرتے ہیں اور نہ ہی ہمارا میڈیا (کچھ گروپس کو چھوڑکر) مطلوبہ معیار تک سچ کو بے نقاب کرتا ہے۔یہ بھارت کا مضبوط پروپیگنڈا اور ہماری کمزور سفارت کاری ہی تھی جس نے ہمیں 1971کی جنگ میں تنہا کردیا تھا اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی دوران جنگ اپنی مشرقی فوج کی کمان جنرل ٹکا خان سے لے کر جنرل نیازی کے سپرد کرنا پڑی۔ کمان کی یہ تبدیلی جنگ کے ہارنے کی ایک بڑی وجہ تھی۔اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں ہم نے کچھ خاص محنت نہیں کی۔ ہمارا سارا زور فوج کو برا بھلا کہہ لینے میں ہی صرف ہوتا ہے لیکن خارجہ پالیسی اور سفارتی محاذ میں ابھی تک وہیں کھڑے ہیں۔ہماری خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا یہ عالم ہے ہم کشمیر میں ہونے والے حقیقی مظالم کو اتنا اجاگر نہیں کرسکے جتنا بھارت نے بلوچستان کے حالات پر جھوٹا پروپیگنڈا جاری کر رکھا ہے۔کہنے کو تو ہماری ایک عدد کشمیر کمیٹی بھی ہے جس کا ایک اجلاس قوم کو 6 کروڑ روپے میں پڑتا ہے لیکن اس کا عملی کام دو چار ماہ بعد ایک آدھ بیان جاری کرنے تک ہی محدود ہے۔بلوچستان میں بھی امن کیلیے آپریشن اور ناراض بلوچوں سے مذاکرات کمانڈرز سدرن کمانڈز (ناصر جنجوعہ، عامر ریاض، عاصم سلیم باجوہ) کی ذاتی کوششوں کا ہی نتیجہ ہیں جس پر بلاشبہ افواج پاکستان مبارکباد کی مستحق ہیں۔لیکن اسی کے ساتھ ساتھ سول قیادت کو بھی ایک واضح پالیسی مرتب کرنا ہوگی جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا کے کردار کو اپنی ضروریات کے مطابق ایک نئے سانچے میں ڈھالنا ہوگا تاکہ پاکستان ہر سطح پر دشمن کی چالوں کا مقابلہ کرسکے۔
جہاں تک کلبھوشن یادیو کی ملاقات اس کی ماں اوراہلیہ سے کرانے کے فیصلے کاتعلق ہے تو انسانی اور اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک اچھا اور صائب فیصلہ تھا لیکن اس ملاقات کے دوران بھارتی ڈپتی ہائی کمشنرکو موجود رہنے کی اجازت دینے کاکوئی جواز نہیں تھا اور دفتر خارجہ کے اس عمل کو قونصلر تک رسائی دینے کے بھارتی مطالبے کو تسلیم کرنے کے مترادف سمجھا جاسکتاہے اور اگرچہ دفتر خارجہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر محض مبصر کی حیثیت سے اس ملاقات میں شریک تھے اور انھیں بات چیت سننے یا اس میں دخل دینے کاکوئی اختیار نہیں تھا لیکن بھارتی حکومت اس ملاقات میں اپنے ڈپٹی ہائی کمشنر کی موجودگی کو بھی اپنی بڑی سفارتی کامیابی بناکر دنیا اور خاص طورپر بھارتی عوام کے سامنے وپیش کرے گا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان کی حکومت نے بالآخر اس کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیک دئے ، دوسری جانب یہ بھی سوال اٹھتاہے اور یقینا یہ سوال اہم بھی ہے کہ اس مرحلے پر جبکہ کلبھوشن یادیو کی رحم کی درخواست صدر مملکت کے سامنے پڑی ہے اور اس پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا اچانک کلبھوشن یادیو کی ملاقات اس کی اہلیہ سے کرانے کافیصلہ کیوں کیاگیا؟ اور اگر کسی وجہ سے یہ فیصلہ کیاگیاتھا تو اس کے بدلے مقبوضہ کشمیرمیں گزشتہ 3سال سے زیادہ عرصے سے قید یاسین ملک کی ملاقات ان کی اہلیہ سے کرانے کی شرط کیوں نہیں عاید کی گئی کیونکہ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ یاسین ملک پر کسی طرح کی تخریب کاری یاجاسوسی کاکوئی الزام نہیں ہے وہ ایک سیاسی قیدی ہیں جبکہ کلبھوشن یادیو کے ہاتھ پاک فوج اور سیکورٹی اہلکاروں سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
اب جبکہ یہ ملاقات ہوچکی دیکھنا یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ پاکستان کے اس خیرسگالی پر مبنی عمل کو عالمی سطح پر کس حد تک کیش کرانے میں کامیاب ہوتی ہے ، اور اس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ میں کس حد تک اضافہ ہوتا ہے۔