میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کمان سے امکان تک

کمان سے امکان تک

منتظم
اتوار, ۲۷ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

do-tok-new

مختار عاقل
پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 29 نومبر 2016 کو دنیا کی مایہ ناز فوج کی کمان چھوڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا، ان کی تقرری موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 2013 میں اسی تاریخ کو کی تھی قوم نے بڑا زور لگایا کہ وہ ابھی سبکدوش نہ ہوں، جنرل راحیل شریف جیسے جری اور بہادر جرنیل صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، ان سے قبل اشفاق پرویز کیانی بھی پاک فوج کے سربراہ تھے، ان کے پورے دور میں پاکستان دہشت گردی کی آماجگاہ بنارہا، بم دھماکے، خودکش حملے، فائرنگ اور تخریب کاری نے تو جیسے پاکستان کا رُخ کرلیا تھا، پورے ملک میں ”بلیک کیٹ“ دندنارہے تھے، ایوان صدر تک میں ان کا بسیرا تھا، امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس لاہور میں پاکستانی نوجوان کو سر عام قتل کرکے بھی باآسانی امریکا نکل گیا تھا، جنرل راحیل شریف آئے تو رُت ہی بدل گئی، دہشت گردوں کا قبر تک تعاقب شروع ہوا تو خونریزی تھم گئی، سنگین جرائم کے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا تو خوف و دہشت عوام سے قاتلوں کی سمت منتقل ہوگئے۔ گزشتہ دور میں کسی نے کہا تھا
”قابل رحم ہے وہ قوم جو ظلم پر خاموش ہے
جو عقائد سے بھری اور مذہب سے خالی ہے
جو بدمعاشوں کو ہیرو مانتی ہے
جس کے سیاستدان لومڑی سے زیادہ چالاک اور جس کے دانشور و فلسفی مداری ہیں۔ “
سابقہ دور حکمرانی میں سابق وزیر اعلیٰ یوسف رضا گیلانی کے خلاف کرپشن کا کیس چلا تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے تھے۔
”حکومت عوام کو سستا آٹا نہیں دے سکتی تو چوہے مار گولیاں ہی دے دے، حکمرانوں کے کتے مربے کھاتے ہیں، شہریوں کو زندہ رہنے کے لیے روٹی نہیں دے سکتے تو حکومت کرنے کا بھی جواز نہیں ہے۔“
آج کی صورتحال 2012-13 سے بدتر ہے، حکومت قرضے پر چل رہی ہے، اربوں ڈالر کا قرضہ پاکستانی عوام کے کاندھوں پر لادا جاچکا ہے، ان حالات میں عوام نے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بڑے کرب کے ساتھ سنا ہے، جنرل راحیل پوری قوم کی امید تھے، کامیابی کی نوید تھے، صورتِ خورشید تھے، قابلِ دید تھے، ان کی رخصتی کا سن کر عوام اُداس اور بے چین ہوگئے ہیں۔ جرائم کدوں میں جشن کی کیفیت ہے، ملک سے بھاگے ہوئے کئی سیاستدان واپسی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ 29 نومبر کو پاک فوج کی کمان تبدیل ہوجائے گی، جنرل راشد محمود بھی چیئرمین جوائنٹ چیفس کمیٹی کا عہدہ چھوڑجائیں گے، ان کی جگہ نیا چیئرمین کمان سنبھالے گا، جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں کے لئے فوج میں کمان کی وقت پر تبدیلی بہت بڑا سبق ہے، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر مقتدر شخص ملک و قوم کی بقاءکو نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اقتدار کی مدت کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کرتا ہے، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ملک میں رہے تو حکومت کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور بیرون ملک گئے تو اخباری بیانات کی توپیں داغ کر اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کرنے لگے۔ ملک اور قوم سے ان کا واسطہ اقتدار اعلیٰ سے وابستگی کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس کے بعد ملک رہے یا نہ رہے، انہیں اس سے سروکار نہیں ہوتا لیکن فوج میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ملک و قوم کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ اولین ترجیح ہوتا ہے۔ یہاں انا کے بت خانے میں خواہشات کی قربانی پیش کی جاتی ہے، مفادات کے معبد میں بے لوث جذبوں کی لازوال داستان رقم کی جاتی ہے یہ جذبہ سیاسی میدان میں مفقود نظر آتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کا سب سے بڑا کارنامہ مایوس اور دہشت زدہ عوام میں امید اور سر اٹھاکر جینے کی امنگ پیدا کرنا ہے، پاکستان دشمن اور دہشت گرد ان سے لرزہ براندام ہے۔
23 نومبر کو کوئٹہ میں اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس تھا، اجلاس میں شریک مالکان و مدیران اخبارات کوئٹہ کی ”دہشت ناکی“ کا تصور لے کر بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت پہنچے تھے لیکن یہاں ماحول کافی مختلف نظر آیا، ایئر پورٹ سے ہوٹل تک کا فاصلہ با آسانی کٹ گیا تو جان میں جان آئی، دو دن کا قیام ہلکا اور ناکافی محسوس ہونے لگا، گورنر بلوچستان احمد خان اچکزئی چین کے دورے پر تھے، ان کی جانب سے قائم مقام گورنر اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی محترمہ راحیلہ حمید خان درانی نے اے پی این ایس ایگزیکٹو کے اعزاز میں عشائیہ کی میزبانی کی، بلوچستان کے حالات اور امن کے لیے ہونے والی کوششوں سے آگاہ کیا تو حوصلے مزید بڑھ گئے۔ دوسرے دن وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں ظہرانہ کا اہتمام تھا، انہوں نے بڑے تپاک سے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور صوبے کے حالات پر روشنی ڈالی، وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری بلوچستان کی سرزمین پر پاکستان کی بقاءو استحکام کی جنگ لڑنے والے بہادر سپاہی ہیں، مئی 2013 میں انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں نے ان کے قافلے پر قاتلانہ حملہ کیا تھا جس میں ان کے صاحبزادے سمیت بھائی اور بھتیجا شہید ہوئے تھے، انہوں نے اس سانحہ کو مثالی صبر و برداشت کے ساتھ سہا اور دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ 1995ءمیں ایسا ہی سانحہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ پیش آیا تھا، سید عبداللہ شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے جب الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے ناصر حسین اور عارف حسین کو شہید کردیا گیا تھا، نواب ثناءاللہ زہری پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑرہے ہیں، انہیں وزارت اعلیٰ کا انعام ملا ہے، ان کے حریفوں میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند دونوں شامل ہیں، انہوں نے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپنے والد مرحوم میر نبی بخش زہری کی قبر پر جاکر یہ عہد کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے آگے کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور پاکستان کی بقاءو استحکام کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، ان سے ملاقات کے بعد ان کے عزم صمیم اور آہنی ارادوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ اپنا عہد بخوبی نباہ رہے ہیں، گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں نے ”پنجابی“ کہہ کر پروفیسروں، ڈاکٹروں، وکلاءاور تاجروں صنعتکاروں کو نشانہ بنایا۔ ماضی میں ان عناصر کے خلاف بولنا بھی مشکل تھا۔ انہوں نے خوف و دہشت کی سلطنت قائم کر رکھی تھی، بلوچستان پاکستان کا تزویراتی خطہ ہے، ایران اور افغانستان کے ساتھ اس کی 900 میل طویل سرحد ملتی ہے، سمندری سرحد بھی سیکڑوں میل ہے، گوادر جیسی دنیا کی عظیم بندرگاہ موجود ہے۔ علیحدگی پسند اور دہشت گرد سی پیک کی تعمیر نہیں چاہتے، انہیں پاکستان کی ترقی پسند نہیں ہے، لیکن جس طرح کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اسی طرح سی پیک معاشی شہ رگ ہے، ہم اسے کبھی تباہ نہیں ہونے دینگے، وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری کی حوصلہ افزا باتیں سننے کے بعد ہم وزیر اعلیٰ ہاﺅس سے باہر نکلے تو دور پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے پیچھے سورج ڈوب رہا تھا۔ آفتابی گولے کا آدھا حصہ پہاڑ کی چوٹی کے نیچے جاچکا تھا اور آدھا حصہ اوپر چمک رہا تھا، ہمارے ہوٹل پہنچنے کے کچھ دیر بعد پورا سورج غروب ہوگیا، میئر کوئٹہ کی جانب سے ہوٹل میں ہی عصرانہ کا اہتمام تھا۔ کچھ ہی دیر میں اندھیرا پھیلنے لگا، لیکن عین اس وقت آسمان پر دوسری طرف ایک اور روشنی ظاہر ہونا شروع ہوئی، یہ چاند کی روشنی تھی جو سورج چھپنے کے بعد مخالف سمت سے نمودار ہوئی تھی، سورج کی روشنی کو گئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک نئی روشنی نے ماحول پر قبضہ کرلیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ قدرت کا اشارہ ہے۔ ایک امکان جب ختم ہوتا ہے تو اسی وقت دوسرے امکان کا ظہور ہوجاتا ہے، افراد اور قوموں کے لیے بھی اُبھرنے کے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے، ایک جنرل راحیل شریف کے بعد دوسرے جنرل کی آمد ہوجاتی ہے اور ایک میر نبی بخش زہری کے بعد دوسرا محب وطن ثناءاللہ زہری عالمِ وجود میں آجاتا ہے۔یہی قدرت کا قانون ہے اور مایوس لوگوں کے لیے امید کا پیغام بھی۔ پاک فوج کے جنرل قمرجاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف اور جنرل زبیرحیات بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی تقرری نے جہاں قیاس آرائیوں کا راستہ بند کردیا‘ وہاں قوم کو یہ پیغام بھی مل گیا ہے کہ پاک فوج ملک وقوم کی حفاظت کیلئے پوری طرح متحدومنظم ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں