سیپا مہران ٹائون کیس میں ضمانت پرآزادافسرپرمہربان
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپانے مہران ٹائون فیکٹری کیس میں ضمانت پر آزاد افسرکو اہم اختیارا ت دے دیے، ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان کو او ایس ڈی کے طور پر کسی بھی فیکٹری میں چھاپہ مارنے کے اختیارات دینے پر سوالیہ نشان لگ لیا۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی مہران ٹائون میں 27 اگست کو بی ایم لگیج نامی فیکٹری میں پراسرار طور پر آگ لگنے کے باعث 16 مزدور زندہ جل کر جاں بحق ہوگئے، کیس میں سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان کا نام بھی سامنے آیا، تحقیقاتی افسر نے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان کا نام کیس میں شامل نہیں کیا ، جس پر جج نے کہا کہ پولیس تحقیقاتی افسر نے جان بوجھ کر ڈی سی کورنگی، کے ڈی اے کے ایگزیکٹو انجینئر زاہد حسین، سیپا کے افسر محمد کامران اور دیگر کے نام چارج شیٹ میں شامل نہیں کئے،ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران، کے الیکٹرک کے جنرل منیجر سمیت دیگر افسران کے نام چالان میں شامل کئے جائیں،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے کہا کہ سیپا افسر مہران ٹائون فیکٹری کا جائزہ لینے میں ناکام ہوا ہے اور فیکٹری سیپا کے علاوہ ہے، آپریشنز جاری رکھے ہوئے تھی۔ بعد میں ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں داخل کی تو عدالت نے درخواست مسترد کردی، جبکہ 8 اکتوبر کو ایک مقامی عدالت نے 5لاکھ کے مچلکوں کے عوض سیپا افسر محمد کامران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کی۔ سیپا میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر تعینات محمد کامران خان آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی ) کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، جس کے تحت وہ احکامات ملنے پر کسی بھی فیکٹری پر چھاپہ مار سکتے ہیں یا معائنہ کر سکتے ہیں۔ سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مہران ٹائون فیکٹری کیس میں نام آنے اورمعزز جج کی جانب سے اشارہ کرنے کے باوجود سیپا کے اعلیٰ افسران کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان کو او ایس ڈی کے اہم اختیارات دینا سوالیہ نشان ہیں، محمد کامران اس سے ضلع سینٹرل کے انچارج تعینات تھے اور ان کو ضلع کیماڑی کے اضافی اختیارات سے بھی نوازا گیا تھا۔