ریکس ٹلرسن کادورۂ پاکستان
شیئر کریں
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن گزشتہ روز پاکستان کے 4گھنٹے کے مختصر دورے پراسلام آباد تشریف لائے اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے بقول ایسے آئے جیسے کوئی وائسرائے آتا ہے،لیکن پاکستان پہنچنے پر انھیں اس وقت ایک دھچکا ضرور لگاہوگا جب انھیں ہوائی اڈے پر اپنااستقبال کرنے والوں میں وزیر اعظم سمیت کوئی اہم رہنما نظر نہیں آیا۔ ظاہرہے کہ وائسرائے کی حیثیت سے استقبال کے متمنی امریکی وزیرخارجہ کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا ، اوراس پر پاکستان کے عوام میں خوشی کاایک احساس بھی پیدا ہواتھا کہ پاکستان نے بالآ خر امریکا کو اس کی اوقات یاددلادی ،لیکن پاکستان کے عوام کی یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ کو وائسرائے جیسی اہمیت دیتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات میں نہ صرف یہ کہ خود شرکت کی بلکہ کابینہ کے دیگر وزرا کو بھی ساتھ بٹھالیا،ایسا کرکے گویا انھوں نے امریکی وزیر خارجہ کے استقبال کے حوالے سے سرد مہری کے رویے کا جو غالباً عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیاگیاتھا ازالہ کردیا۔اطلاعات کے مطابق امریکی وزیرخارجہ اپنے ساتھ پاکستان کے لیے نئی شرائط کی فہرست بھی لائے تھے،جس کااظہار انھوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی شروع کردیا تھا۔ ٹلرسن نے منگل کو آمد کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور پاکستانی وزرا سے مذاکرات بھی کیے۔ اس پر بجا طور پر یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم کو ٹلرسن سے ملاقات کرنے کے بجائے انہیں وزیر خارجہ پاکستان تک محدودرکھنا چاہیے تھا۔ امریکا کو اس کی اوقات یاد دلانی چاہیے تھی لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہے اور بقول جوش ملیح آبادی’’ اتنی غلام قوم میں طاقت کہاں ہے جوش‘‘!!
اگرچہ ریکس ٹلر سن کی پاکستان آمد سے قبل تک تو بڑھ چڑھ کر کہا جارہا تھا کہ اب ڈو مور کا مطالبہ نہیں چلے گا لیکن اس کے ساتھ ہی بعض حلقے یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا میں اس کا وعدہ کر آئے ہیں ۔ریکس ٹلرسن نے پاکستان آنے سے پہلے کابل کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تاکہ امریکا کی زیر دست کابل انتظامیہ سے بھی پاکستان کے خلاف کچھ مواد حاصل کرلیا جائے۔ انہوں نے صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات میں خطہ کے لیے امریکا کی نئی پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ امریکا سے اس کے تعلقات کا انحصار اس پر ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا صفایا کرے، پاکستان سے دہشت گردوں کاصفایا کرنے کا یہ مطالبہ کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن نے اس کاکوئی ذکر نہیں کیا کہ 2002سے افغانستان پر مکمل قبضے اور افغانستان کے دفاعی اورسلامتی سے متعلق امور سمیت تمام معاملات پر مکمل دسترس رکھنے کے باوجود امریکا اور اس کے صلیبی حواری افغانستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیوں نہیں کرسکے ،جبکہ یہ ایک حقیقت ہے اور امریکا اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا کی سپر طاقت ہونے کے ناتے عسکری لحاظ سے امریکا کے پاس پاکستان کے مقابلے میں نہایت جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی ا ورتربیت یافتہ فوج موجود ہے لیکن تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود امریکا افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام رہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوجی طالبان سے دوبدو مقابلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں یہی نہیں بلکہ وہ طالبان اور جنگجوؤں کے زیر اثر علاقوں میں جانے سے بھی گریز کرتے ہیں اور افغان مجاہدین اور جنگجوؤں کو اپنی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کی بنیاد پر فضا سے نشانا بنانے کی کوشش کرتے ہیں ان حملوں میں جنگجوؤں کے ساتھ ہی بے شماربے گناہ مارے جارہے ہیں جس سے افغانوں میں انتقام کے شعلے بھڑکتے ہیں ۔افغانستان کے سابق سربراہ گزشتہ روز یہ چشم کشا انکشاف کرچکے ہیں کہ امریکا افغانستان میں داعش کی پرورش کررہاہے،کیا یہ امریکی دورنگی نہیں ہے کہ امریکا پاکستان سے تویہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ امریکا سے تعلقات چاہتا ہے تو دہشت گردوں کو ختم کرے۔ جب کہ پاکستان از خود دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں متعدد قیمتی جانیں قربان ہوچکی ہیں ۔ ان شہیدوں کی تعداد افغانستان میں مارے جانے والے فوجیوں سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن دوسری جانب افغانستان میں خود داعش اورطالبان کی سرپرستی کررہاہے ، ٹلرسن نے کابل میں فرمایا کہ امریکا افغانستان میں امن و استحکام اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ گزشتہ 16برس سے امریکا افغانستان میں کیا کر رہا ہے، یہ عزم افغانستان میں کہیں نظر کیوں نہیں آتا۔ اس کے لیے پاکستان کے کندھے پر نہیں بلکہ پشت پر بندوق رکھنے سے کیا یہ عزم پورا ہو جائے گا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب ڈومور کی گنجائش نہیں ، افغانستان میں قیام امن سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ لیکن جب تک امریکا افغانستان پر قابض ہے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکتا۔
وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز سینیٹ میں پاک امریکا تعلقات اور امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں دیرپا امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے جبکہ افغانستان کی حکومت بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ۔سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سرزمین پر امن قائم کیا اور دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کامیابی سے جاری ہے جبکہ 648 کلومیٹر کی سرحد پر افغانستان کی کوئی ایک چیک پوسٹ نہیں ۔انہوں نے کہا کہ داعش کے لیے افغانستان کا علاقہ کافی ہے، انہیں پاکستان کی ضرورت نہیں کیونکہ افغانستان کے 45 فیصد علاقے پر داعش قابض ہے۔خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ ہم نے نہ آرڈرلیا نہ دباؤ قبول کیا ،ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکی وزیر خارجہ کو وائسرائے نہیں مانتے، اور انہیں واضح کردیا ہے کہ ہمیں امداد یا ہتھیار نہیں چاہیے، خواجہ آصف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھوں نے امریکا کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں ‘۔انھوں نے دعویٰ کیاکہ امریکا میں معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھا گیااور سویلین اور فوجی قیادت نے حال ہی میں مل کر امریکا سے بات کی۔وفاقی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ہماری فوج، عوام اور سیکورٹی اداروں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں ، ہمیں امریکا کی نہیں ،پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی حمایت چاہیے۔ وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ پاکستان، امریکا سے معاشی امداد اور اسلحہ نہیں چاہتا بلکہ اعتماد اور عزت و وقار کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک-امریکا تعلقات میں اعتماد فوری طور پر دوبارہ قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ کئی سال سے تعلقات کے حوالے سے اتنی برف جم چکی ہے جسے پگھلنے کے لیے وقت درکار ہے۔وفاقی وزیر خارجہ نے پاکستان کے لیے امریکی رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ اپنی درینہ دوستی کے نتائج بھگتے ہیں اور ان سے آج بھی نبرد آزما ہے۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد جانوں کے نذرانے دیئے، کھربوں روپے کا نقصان ہوا اور پاکستان کا پر امن معاشرہ تباہ ہوگیا۔پاک-امریکا تعلقات میں تناؤ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملات دھمکی سے نہیں بلکہ صلح کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں ۔امریکا کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا اور اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود ہمسایہ ملک کا 45 فیصد علاقہ واپس طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا۔وزیر خارجہ نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ کو بتادیا ہیکہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔خطے میں جاری صورتحال کے بارے میں انہوں نے سوال کیا کہ امریکا گزشتہ 16 سال سے افغانستان میں موجود ہے اور اس دوران افغانستان میں اس نے کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں ؟وزیر خارجہ کے بقول انھوں نے امریکی وزیر خارجہ پر یہ بھی واضح کیاکہ افغانستان پاکستان کے خلاف بھارت کے سہولت کار کے طورپر کام کررہاہے جو پاکستان کو کسی طورپر قبول نہیں ہے ،تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات 70 برس پرانے ہیں جنہیں ہم ہمیشہ جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔
خواجہ آصف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ریکس ٹلرسن سے کیابات کی اور کس انداز میں بات کی اور ریکس ٹلرسن نے ان کی باتوں کو کس حد تک اہمیت دی ہے اس بارے میں تفصیلات زیادہ دنوں چھپی نہیں رہیں گی اور جلد ہی تمام باتیں کھل کر سامنے آجائیں گی،تاہم اگر ریکس ٹلرسن سے ملاقات کے حوالے سے خواجہ آصف نے جوباتیں بتائی ہیں وہ درست ہیں تو یقینا انھیں پاکستان کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق قرار دیاجاسکتاہے اور یہ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت پاکستان امریکا اور افغانستان کے حوالے سے اپنے اس موقف اور پالیسی پر سختی کے ساتھ قائم رہے گی اورامریکی امداد کے لیے کبھی اس کے سامنے سرنگوں نہیں ہوگی۔