رحیم یار خان ،12پولیس اہلکاروں کی شہادت کا پس منظر
شیئر کریں
دریا کنارے
۔۔۔۔۔۔
لقمان اسد
یہ لمحہ فکریہ نہیںکہ رحیم یار خان کے کچے کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکوؤں نے پولیس کی 2 گاڑیوں پر راکٹوں سے حملے میں 12 پولیس اہلکاروں کو شہید اور 8 کو زخمی کردیا ۔ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2 گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ کیا جبکہ دونوں پولیس موبائلوں میں 20 سے زائد اہلکار سوار تھے۔ترجمان پولیس کے مطابق پولیس اہلکار ہفتے وار چھٹی سے واپس آ رہے تھے کہ پولیس کی دونوں گاڑیاں بارش کے باعث کیچڑ میں پھنس گئیں، ڈاکوئوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور گھیراؤ کر کے حملہ کر دیا۔پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا، پولیس کے ترجمان کے مطابق حملے کے بعد سے 5 اہلکار لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے سرچ اور ریسکیو آپریشن جاری ہے،اب سوال یہ اُٹھتے ہیں کہ کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف پولیس اتنی بے بس کیوں ہے؟
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ہماری حکومت ملک کی سب سے بڑی جماعت اور وفاق کی اکائی پاکستان تحریک انصاف کے ایک پر امن جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے ریاستی پولیس کو عوام کے خلاف استعمال کر رہی تھی جہاں نہتے شہریوں کو یہ ریاستی پولیس پرتشد د طریقے سے گرفتار کرکے اپنی گاڑیوں میں ڈال رہی تھی ،خواتین کو مارا پیٹا جارہا تھا ،اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا درست لگتا ہے کہ ”جب پوری پنجاب پولیس تحریک انصاف کا جلسہ روکنے میں لگی تھی رحیم یار خان میں ایک دو نہیں گیارہ پولیس والے ڈاکوؤں کے حملے میں شہید ہو گئے ، پنجاب پولیس کے سیاسی استعمال نے پورے ادارے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ”۔ڈاکوؤں کے اس حملے نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس حملے کو اب تک کا ڈاکوؤں کی طرف سے سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے،گزشتہ کچھ مہینوں میں کچے کے ڈاکو ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث قرار دیے گئے اور پنجاب پولیس نے اس حوالے سے ایک مہم بھی چلائی کہ جنوبی پنجاب خاص طور پر رحیم یار خان کے علاقوں کے لوگ موبائل فون پر اجنبی خواتین کے جھانسے میں نہ آئیں۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار کی موت جبکہ کل سات زخمی ہوئے، چالیس نئی چوکیاں قائم کی گئیں جبکہ چودہ بیس کیمپ بنائے گئے ہیں۔گزشتہ روز انہی چودہ میں سے ایک بیس کیمپ کو ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملے کا نشانہ بنایا،آئی جی پنجاب آفس سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ آپریشن ساٹھ ہزار ایکڑ کے کچے کے علاقے میں کیا گیا جس میں اب تک 65 ڈاکوؤں کی ہلاکت ہو چکی ہے، 26 ڈاکوؤں نے خود کو سرنڈر کیا اور 60 سے زائد گرفتار ہوئے۔لیکن اس کے باوجود یہ سانحہ رونما ہو گیا ۔باشعور حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ کچے میں سکونت پزیر ڈاکوئوں کو بڑے سرداروں اور وڈیروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے خلاف گرینڈ آپریشن نہیں کیا گیا، جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو چند دن تک بڑے زور شور سے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف حتمی آپریشن کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، پولیس بھی متحرک ہوتی ہے، آئی جی سمیت دیگر اعلی افسران کچے کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں، پولیس افسران سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور حکمت عملی مرتب ہوتی ہے لیکن پھر اچانک گرینڈ آپریشن سکڑ کر چند ایک علاقوں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔
علاقائی سطح پر وقتاً فوقتاً کئے گئے چھوٹے آپریشن کے دوران پولیس کا ہی جانی نقصان ہوا،پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں واقع دریائی علاقے میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں دہائیوں سے موجود ہیں،جنہیں ختم کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی گئی کہ یہاں کے مقامی بااثر سیاست دان اور وڈیرے ان کے سہولت کار ہیں ۔گزشتہ چند سالوں سے کچے کے ڈاکو کسی نہ کسی طرح خبروں میں ضرور رہتے ہیں۔ پچھلے سال صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے دریائی علاقے میں چھپے ڈاکوؤں کے گینگز کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ بڑے ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکوئوں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز راکٹ لانچر سمیت جدید ہتھیار موجود ہیں، بعض پولیس افسران کے مطابق ڈاکوئوں کے پاس ہتھیاروں کی جدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکوئوں کے پاس ہیں، ان کی رینج 3 کلو میٹر اور پولیس کے ہتھیاروں کی رینج صرف 500 میٹر ہے۔ ایسی سنگین صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خطیر رقم کی منظوری کے بعد پولیس کو جلد از جلد جدید ترین ہتھیار مہیا کئے جاتے مگر افسوس حسب روایت ایسا نہیں ہوسکا اور وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔