پاکستان کے6کروڑ عوام زہرملا پانی پی رہے ہیں ‘ عالمی ادارہ صحت کی چشم کشا رپورٹ
شیئر کریں
سندھ کے 14 اضلاع میں 83.5 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ‘دریائے سندھ سے متصل تمام کنوؤں کی جانچ کی ضرورت ہے
کراچی کوفراہم کیاجانے والا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے ‘واٹربورڈکراچی بھی اس پانی میں ’’ای گولی ‘‘کی موجودگی تسلیم کرتاہے
ای گولی نامی جرثومہ 24گھنٹوں میں تقسیم ہوکر پوری ایک کالونی بن سکتا ہے‘کائی اورخشک لائنیں اس کی افزائش کابہترین مقام ہیں
رہائشی عمارات ‘ گھروں ‘مساجد‘اسپتالوں سمیت اہم مقامات پرپانی کی ٹنکیاں ہفتہ وارصاف کراکے پانی کی آلودگی کم کی جاسکتی ہے
تہمینہ حیات
پاکستان کی6 کروڑ سے زائد آبادی زہریلے کیمیائی عنصر ’آرسینک‘ پر مشتمل زیر زمین پانی استعمال کرنے کے خطرے سے دوچار ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ایواگ‘ کے نام سے مشہور سوئس ادارے ’سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکواٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے تقریباً 8 کروڑ 80 لاکھ افراد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں زیر زمین پانی میں آرسینک شامل ہے۔
پانی کے قابل استعمال ہونے کے حوالے سے تحقیق کرنے والے محققین نے ملک کے تقریباً 12 سو سے زائد مقامات سے زیر زمین پانی کے نمونے لیے اور بتایا کہ پاکستان کی 60 سے 70 فیصد آبادی کا زیر زمین پانی پر انحصار ہے جبکہ ملک کے 5 کروڑ یا ایک اندازے کے مطابق 6 کروڑ لوگ ممکنہ طور پر آرسینک سے متاثر ہیں ۔ایواگ کے تحقیق کار جویل پوڈ گورسکی کا کہنا ہے کہ فوری طور پر دریائے سندھ سے متصل علاقوں میں تمام کنوؤں کے پانی کی جانچ کی ضرورت ہے۔
کچھ عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر پینے کے پانی کی صورت حال معلوم کرنے کے لیے قائم کی گئی ٹاسک فورس نے اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں انکشاف کیاگیا ہے کہ سندھ کے 29 میں سے 14 اضلاع میں 83.5 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔یہ رپورٹ جب کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تو جسٹس کلہوڑو واضح طور پر پریشان نظر آئے۔ عدالتی مشیر غلام مرتضیٰ کے مطابق "وہ خاصے ناراض تھے اور انہوں نے شہر میں نوے فیصد پانی کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے، ادارہ فراہمی و نکاسی آب یا واٹر بورڈ (KWSB) کے سربراہ سے کہا کہ کوئی ایک ایسا علاقہ دکھا دیں جہاں صاف پانی سپلائی کیا جاتا ہو۔” رپورٹ اب سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ہے۔
نمونوں کا حصول
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے سینئر ریسرچ آفیسر، مرتضیٰ نے دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ پورے سندھ سے 460 نمونے حاصل کیے گئے تھے، جن میں سے 232 (50.4 فیصد) نمونے زمینی آبی وسائل سے جمع کیے گئے، 179 (39 فیصد) زیر زمین وسائل، 46 (10 فیصد) ریورس اوسموسس فلٹریشن پلانٹس اور تین (0.06 فیصد) دیگر مختلف وسائل سے حاصل کیے گئے۔نمونے 14 شہروں سے حاصل کیے گئے تھے۔ دیہات کو شامل نہیں کیا گیا کیوں کہ ٹاسک فورس کو بڑے شہری مراکز کا معائنہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا جہاں پانی کی فراہمی حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے تاکہ مؤخر الذکر کا احتساب کیا جاسکے کیوں کہ وہ "عوامی امانت دار” ہیں ۔
تھر وہ واحد جگہ تھی جسے دور دراز اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے بڑا شہری مرکز نہیں کہا جاسکتا۔ مرتضیٰ کے مطابق "اسے شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے یہاں ریورس اوسموسس پلانٹس لگانے کے لیے بڑی رقم خرچ کی ہے۔ ہم نے شہر کے مختلف آبی وسائل جیسے آبی ترسیل کی اسکیموں ، نہروں ، ریورس اوسموسس پلانٹس، عوامی مقامات، ہسپتالوں ، اسکولوں اور بس اسٹینڈز سے پانی کے نمونے اکٹھے کیے۔” سندھ ہائی کورٹ نے مرتضیٰ سے سیمپلنگ ٹیم کی سربراہی کے لیے بھی کہا تھا۔
پانی کے نمونے فزیکوکیمیکل اور مائکروبائیولوجیکل تجزیے کے لیے جمع کیے گئے تھے تاکہ رنگ، بو، ذائقہ، پی ایچ، الیکٹرک کنڈکٹیوٹی، کل تحلیل شدہ ٹھوس مادے (TDS)، آرسینک، نائٹریٹ – نائٹروجن، فلورائیڈ (-F)، آئرن، سلفیٹ، سوڈیم، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم، ہارڈنیس، بائی کاربونیٹس، کولیفورمز اور ای کولی کا تجزیہ کیا جاسکے۔ تجزیہ امریکن پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن (APHA) کا معیاری طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔مرتضیٰ کے مطابق نمونے جمع کرنے کے دوران تمام معیاری احتیاطی تدابیر کا سخت خیال رکھا گیا۔ مثال کے طور پر، نائٹریٹ کے لیے نمونوں کی بوتلوں میں بورک ایسڈ استعمال کیا گیا۔ بعض نمونے آئس باکس میں محفوظ کر کے بائیولوجیکل ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹریز تک پہنچائے گئے۔ حصول کے فوراً بعد نمونے بیرونی ماحول سے محفوظ کر لیے جاتے۔
اس رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ کراچی کا پانی سب سے زیادہ آلودہ ہے۔ 118 نمونے کراچی سے حاصل کیے گئے تھے، 99 زمینی وسائل مثلاً سپلائی سسٹم، فلٹریشن پلانٹس اور پمپنگ اسٹیشنز سے، 13 زیر زمین آبی وسائل، تین ریورس اسموسس پلانٹس اور تین دیگر مختلف زمینی اور زیر زمین وسائل سے۔فزیوکیمیکل تجزیے کی بنیاد پر پانی کے 21 (17.8 فیصد) نمونوں کو غیر محفوظ قرار دیا گیا کیوں کہ ان میں گدلے پن کی شرح محفوظ حد سے زیادہ تھی۔ بیکٹیریو لوجیکل تجزیہ کے حساب سے، 104 (88.1 فیصد) نمونوں میں کولیفورم بیکٹیریا کی موجودگی پائی گئی جوکہ عالمی ادارہ ِ صحت (WHO) کی مقرر کردہ حد (0/100ml cfu) سے زیادہ تھی اور 40 (33.4 فیصد) میں فضلے کی آلودگی (ای-کولی بیکٹیریا) پائی گئی۔ مجموعی حاصل معلومات کے مطابق کراچی کے مختلف مقامات سے حاصل کیے گئے 107 (90.7 فیصد) پانی کے نمونے پینے کے لیے غیر محفوظ تھے۔مرتضیٰ کے مطابق "ای-کولی کی موجودگی کا مطلب ہے سیوریج اور پانی کی سپلائی آپس میں مِل رہی ہیں ۔”
واٹر بورڈ کے چیف کیمسٹ محمد یحییٰ، پانی کی سپلائی میں ای-کولی کی موجودگی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اتنی بڑی مقدار میں ای-کولی کی موجودگی کی اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ای-کولی تیزی سے پھیلنے والا بیکٹیریا ہے۔ای کولی کا صرف ایک جرثومہ چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو کر پوری کالونی بن سکتا ہے۔ کراچی میں پانی چوبیس گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دن سپلائی نہیں ہوتا۔یحییٰ کہتے ہیں ، "بعض علاقوں کو پانی ایک ہفتے اور بعض کو دس دن بعد سپلائی ہوتا ہے۔ اگر ای-کولی کا ایک بھی جرثومہ سوکھی پائپ لائن میں داخل ہوگیا تو ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی تعداد کھربوں تک پہنچ جائے گی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر لائنز میں پانی پورا وقت چلتا رہتا تو ایسا نہ ہوتا۔ مزید یہ کہ ان پائپوں کے اندر کائی جم گئی ہے جو ان جرثوموں کی افزائش کے لیے موزوں جگہ ہے۔ کراچی میں 10,000 کلومیٹر طویل پانی کی پائپ لائنز کا جال بچھا ہوا ہے جو لوہے کے پرانے پائپوں اور انتہائی کثافت والی پولی بھائیلین پلاسٹک پر مشتمل ہیں ۔”
پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کو پانی ایک نہری نظام کے ذریعے شہر سے 122 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود کینجھرجھیل سے ملتا ہے، جس کا ماخذ دریائے سندھ ہے۔ دریائے سندھ سے بہنے والا ایک پانی کا قطرہ کینجھر جھیل تک پہنچنے کے لیے17دن کی مسافت طے کرتا ہے۔ان کاکہناہے کہ "ہاں آلودگی تو ہے”لیکن وہ اس کاالزام بھی رہائشیوں پر الزام عائد کردیا کہ وہ بجلی کی طرح پانی بھی "چوری” کرتے ہیں ۔ "جب بجلی چوری ہوتی ہے تو آپ کو جگہ جگہ کنڈے لگے نظر آتے ہیں اور آپ ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں ۔ لیکن جب زیرِ زمین مین لائنوں میں سوراخ کر کے پانی چوری کیا جاتا ہے تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔”یحییٰ کے مطابق اکثر ان چھیدوں کے ذریعے فضلہ پانی میں داخل ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو زیرِ زمین پانی صاف رکھنے کے لیے اپنا شہری کردار ادا کرنا چاہیے۔ "ہم نے کتنی بار سنا ہے کہ بڑی عمارتوں کے رہائشی، اور مسجدوں یا ہسپتالوں کی انتظامیہ پانی کے ٹینک صاف کرواتی ہیں ؟”واٹر بورڈ کے ایک اور افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا: ”بورڈ لیک کی مرمّت کرتا ہے اور اکثر پائپس کی تبدیلی بھی ہوتی ہے، لیکن تقسیم کے پورے نیٹ ورک کی مکمّل تجدید کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کے لیے نہ صرف دو سے تین سال درکار ہیں بلکہ خرچہ بھی کافی آئے گا۔‘‘
پانی کا مناسب علاج؟
تقسیم کے فرسودہ نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ کراچی میں پانی کی صفائی کے لیے 6 ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں (ایک گھارو میں ہے لیکن وہ بھی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تحت) جو پوری طرح کام نہیں کررہے۔جنوری میں جب جسٹس کلہوڑو نے ٹریٹمنٹ پلانٹس کا دورہ کیا تو خان صاحب نے ان کے سامنے تسلیم کیا کہ ’’گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے 20 کروڑ گیلن غیر فلٹر شدہ پانی روزانہ سپلائی کیا جاتا ہے۔‘‘
واٹر بورڈ کے ایک افسر نے تسلیم کیا کہ "جی ہاں کچھ فلٹریشن پلانٹس پرانے اور خراب ہیں ؛ زیادہ تر جزوی طور پر کام کررہے ہیں جبکہ ایک تو بالکل فرسودہ ہے۔ حقیقت میں صرف ایک پلانٹ (NEK2) ہیجو پوری گنجائش کے ساتھ کام کررہا ہے۔”دی تھرڈ پول ڈاٹ
نیٹ کو بتایا گیا کہ "غیر ملکی کمپنیاں آتی ہیں ، پلانٹس لگاتی ہیں ، اور چلی جاتی ہیں ۔ ہمارے تکنیکی ماہرین مناسب تربیت نہ ہونے کی بنا پر ان کی دیکھ بھال نہیں کرپاتے۔ چنانچہ جب کوئی خرابی ہوتی ہے تو ہم اپنی محدود مہارت سے کام چلاتے ہیں ۔ آخر میں اپنی مدّت پوری ہوجانے کے بعد مشین دم توڑ دیتی ہے۔”اسد اللہ خان کے مطابق "ایک نیا درآمد شدہ پلانٹ جون 2018 تک واٹر بورڈ کے سسٹم میں نصب ہوجائے گا جو یومیہ 26 کروڑ گیلن فلٹر شدہ پانی سپلائی کیا کرے گا۔”
قلّت کی وجہ؟
کراچی کی تیزی سے پھلتی پھولتی آبادی کی بے لگام طلب کو پورا کرنے کے لیے واٹر بورڈ اپنا آبی ترسیل کا نظام بڑھا تو رہا ہے مگر موجودہ نظام کی تجدید سے قاصر ہے۔ بہرحال جتنی بھی کوششیں کرلی جائیں ، اب بھی خان صاحب کے مطابق "50 فیصد قلّت” برقرار ہے۔اور اس کمی کو ٹینکر مافیاپورا کرتا ہے جو غیر قانونی ہائیڈرینٹس چلانے والوں کی ملی بھگت سے (ریاست سے چرایا گیا) پانی لوگوں کو سپلائی کرتا ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک افسر کے مطابق "پانی کے کاروبار سے بہتر کاروبار کوئی نہیں کیوں کہ پانی سب کو چاہیے اور یہ آرام سے دستیاب ہے۔ ہمیں اس کا انتظام اور فراہمی بہتر بنانی ہوگی۔ ہم ایک خوشحال ادارہ بن سکتے ہیں اگر ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرنا شروع کردیں ، اور جو غلط کر رہا ہے، اس کی نشاندہی کریں ۔”ان کے مطابق، "یہ آلودگی ہمارے گھروں تک بھی پہنچ رہی ہے۔ آخر کون صحیح الدماغ شخص ہوگا جو اپنے بچوں کو آلودہ پانی پلانا چاہے گا؟
واضح رہے کہ اسی طرح کے آرسینک کے نمونے بھارت کے دریا گنگا اور بنگلہ دیش کے دریا برہما پترا کے اطراف میں زیر زمین پانی میں بھی پائے گئے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ آرسینک عمومی طور پر زیر زمین ہوتا ہے اور گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کی ایک کثیر آبادی نے زیر زمین پانی کا استعمال بڑھا دیا ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایک لیٹر پانی میں آرسینک کی 10 مائیکروگرام سے زائد مقدار کو خطرناک قرار دیا ہے، جبکہ پاکستان سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں اس کی مقدار کئی گنا زائد پائی گئی۔آرسینک کے استعمال سے انسانی خلیات ختم ہوجاتے ہیں ، جس کے باعث جِلد، دل اور دیگر اعضا کی بیماریوں سمیت کینسر کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے جبکہ آرسینک کے زہر کا اب تک علاج ممکن نہیں ہو سکا۔قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر عابدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ اس نئی تحقیق میں لیے گئے نمونوں کی تعداد بہت کم ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے نتائج واضح نہیں ہیں ۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس تحقیق نے ملک میں ابھرتے ہوئے آرسینک کے ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی لیکن پورے سندھ سے 1200 پانی کے نمونے، نتیجہ نکالنے کے لیے بہت کم ہیں ۔ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی سربراہ لبنیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور زیر زمین پانی، جو تقریباً نصف آبادی غیر متوازی طور پر اپنے استعمال کے لیے زمین سے نکالتی ہے، میں آرسینک کی بڑھتی ہوئی مقدار سے آگاہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تشویش ناک بات ہے کیونکہ قواعد و ضوابط کی کمی کے باعث لوگوں نے زیر زمین پانی کو آلودہ کردیا جس میں آرسینک کا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے ہنگامی مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے ان کا محکمہ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ کے اشتراک سے انتہائی متاثرہ علاقوں میں اینٹی آرسینک فلٹر پلانٹ لگا رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر تحقیق کار ایسی گہرائی معلوم کرلیں جہاں پانی آلودہ نہ ہو تو وہاں ان کا محکمہ فوراً کنواں تیار کرلے گا۔اسلام آباد کے ایک رہائشی علی حسن کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور وہ زیر زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں تو ان کے لیے یہ انتہائی پریشان کْن نتائج ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے۔خیال رہے کہ گزشتہ برس پارلیمنٹ میں ایک سروے پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان بھر کے 24 مختلف اضلاع میں 2 ہزار807 مختلف گاؤں کے 80 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہیں ۔
(یہ خبر ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوئی۔)