کشمیر بھارت کا حصہ نہیں
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اگلے روز اس بات پر زور دے کر کہا کہ کشمیر بھارت کا کبھی اٹوٹ انگ نہیں بنے گا۔ افواج پاکستان کی آپریشنل تیاریوں کی دنیا گواہ ہے،بھارت نے مہم جوئی کا سوچا بھی تو افواج پاکستان بھر پور جواب دے گی۔ پاک بھارت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے مابین 2003 کے سیز فائر کے معاہدے پر فروری 2021 پر جو انڈرا سٹیڈنگ ہوئی اس کے بعد سے لائن آف کنٹرول کی صورتحال نسبتاً پر امن رہی ہیں۔ ہندوستانی لیڈر شپ کی گیدڑ بھبھکیاں اور لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب سے انفلٹریشن اور ٹیکنیکل ایئر وائلیشن اور دیگر الزامات کا لگاتار جھوٹا پراپیگنڈا بھارت کی در حقیقت ایک خاص سیاسی ایجنڈے کی عکاسی کرتاہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ نے اقوام متحدہ کے ساتھ بھر پور تعاون کیاہے ۔ اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر مکمل رسائی دی گئی ہے ، جبکہ بھارت کی طرف سے کوئی رسائی نہیں دی گئی ،پاکستان کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران 16 دورے کروائے گئے جن میں بین الاقوامی میڈیا اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کا دورہ اہمیت کا حامل ہے جبکہ بھارت نے ایسا کوئی دورہ نہیں کروایا جوکہ اس کی مقبوضہ کشمیر میں حقیقی صورتحال کو چھپانے کی کوشش ہے ۔
بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر میںجو کچھ ہو رہا ہے وہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کسی کو جواب دہ نہیں۔ اس کے برعکس ہمار ا مؤقف ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیںہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ریاست جموں وکشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر بھارت کا کبھی اٹوٹ انگ تھا نہ اب ہے۔
بھارتی قیادت کا یہ طرزعمل نیا نہیں۔ جب بھی پاکستان نے کشمیر پر مذاکرات کی کوئی تجویز پیش کی تو بھارت نے اسے قبول نہیں۔ جب بھارتی لیڈر اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر کشمیر سمیت تمام مسائل پر جامع مذاکرات بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا اور جب اس عالمی ادارے نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیریوں کو دے دیا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا لیکن کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنے کی کاروائی بھی جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی برقرار ہیں۔ بھارت نے ابتداء میں تو ان قراردادوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میں مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ آج بھی پاکستان اور بھارت اپنے وسائل کا زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ اگر بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کے بارے میں اٹوٹ انگ کا راگ الاپنے کی رٹ بند نہ کی تو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہوں گے اور دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھتا جائے گا۔ جو نہ صرف دونوں ملکوں کیلئے تباہ کن ہوگی بلکہ عالمی امن بھی تباہ کر سکتی ہے۔
پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کیلئے کئی مثبت اقدامات کیے مگر بھارتی لیڈروں نے متواتر کئی متنازعہ بیانات دیے جن سے ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے بار بار یہ بھی کہا کہ مذاکرات اسی صورت ہوںگے جب سرحد پار در اندازی بند ہوگی۔ پاکستانی حکومت کئی بار بھارت کو یقین دلانے کی کوشش کرچکی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کوئی مداخلت نہیں کر رہا، مگر بھارت کو شبہ ہے تو کنٹرول لائن پر غیر جانبدار مبصرین تعینات کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت یہ تجویز قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بھارتی لیڈر ایک طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان پرمقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا بے بنیاد الزام عائد کرتے ہیں۔دنیا کا ہر باشعور فرد اس سے بخوبی اندازہ کر سکتاہے کہ بھارتی لیڈر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے مخلص نہیں۔بھارتی لیڈر صرف دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں حالانکہ انہوں نے دل سے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت نے اگر ”اٹوٹ انگ” کی رٹ نہ چھوڑی اور پاکستان بھی اپنے روایتی مؤقف پر ڈٹا رہا تو پھر مسئلہ کشمیر کا تصفیہ مؤخر ہو جائے گا۔
بھارتی لیڈر صرف دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں حالانکہ انہوں نے دل سے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔بھارت صرف تجارتی مفادات کیلئے پاکستان کو اپنے مال اور اشیاء کی منڈی بنانا چاہتاہے اور اسطرح پاکستان کی معیشت مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کیلئے کوششوں کو اولین اہمیت دینی چاہیے اور اسے مزید الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ، بصورت دیگر جنوبی ایشیاء میں ایٹمی جنگ کا خطرہ برقرار رہے گا۔
٭٭٭