تھر کے عوام کی امیدوں کامرکز ‘رینی کینال پروجیکٹ وفاقی امداد کا منتظر
شیئر کریں
منصوبہ اس اعتبار سے بہت اہمیت رکھتاہے کہ اس میں سیلاب کے دنوں میں آنے والا اضافی پانی ذخیرہ کیاجاسکے گا جو سندھ کی بنجر زمینوں پر کاشت کیلئے استعمال کیاجاسکے گا
منصوبے کی نظر ثانی شدہ لاگت کی منظوری کیلئے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجی جاچکی، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم نہ کئے جانے کے سبب اس کی منظوری نہیں دی جارہی
ایچ اے نقوی
گڈو بیراج کے بائیں جانب واقع رینی کینال کا پروجیکٹ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی اورصوبائی حکومت کی جانب سے اس کی تعمیر کی نظر ثانی شدہ لاگت کی عدم منظوری کی وجہ سے تعمیر شروع کئے جانے کامنتظر ہے۔دفاعی اعتبار سے اہم تصور کی جانے والی بعض تبدیلیوں کی وجہ سے اس کی تعمیراتی لاگت میں اضافہ ہوگیاہے لیکن سندھ کی حکومت نہ تو اس کی منظوری دینے کو تیار نظر آتی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت اس کیلئے فنڈز فراہم کررہی ہے ، اس طرح یہ اہم منصوبہ معلق ہوکر رہ گیاہے۔اطلاعات کے مطابق منصوبے کی نظر ثانی شدہ لاگت کی منظوری کیلئے سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجی جاچکی ہے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز فراہم نہ کئے جانے کے سبب اس کی منظوری نہیں دی جارہی ہے۔
اطلاعات کے مطا بق وزیر اعلیٰ سندھ رینی کینال منصوبے کی جلد تکمیل چاہتے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کئے جانے کے سبب وہ بے بس نظر آتے ہیں ، اس حوالے سے گزشتہ ماہ انھوں نے واپڈا کے چیئرمین سے ملاقات کرکے انھیں اس منصوبے پر کام تیز کرنے کو کہاتھا۔
صوبائی محکمہ آبپاشی کے حکام کاکہنا ہے کہ رینی کینال منصوبہ اس اعتبار سے بہت اہمیت رکھتاہے کہ اس میں سیلاب کے دنوں میں آنے والا اضافی پانی ذخیرہ کیاجاسکے گا اور یہ پانی سندھ کی بنجر پڑی ہوئی صحرائی زمینوں پر فصلیں کاشت کرنے کیلئے استعمال کیاجاسکے گا اس طرح اس کینال کی تعمیر سے جہاں سندھ کے پانی سے محروم وسیع علاقے کے عوام کو پینے اور روزمرہ ضرورت کے لئے پانی کی فراہمی ممکن ہوجائے گی بلکہ سندھ کی دھول اڑتی زمین لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں تبدیل ہوجائے گی۔
نقشے کے مطابق یہ کینال مجموعی طورپر 175 کیلومیٹر طویل ہوگی اس کا پہلا مرحلہ جو کہ 110 کیلومیٹر پر محیط ہے مکمل کیاجاچکاہے جبکہ صرف65 کیلومیٹر کا کام باقی رہ گیاہے، رینی کینال کی تکمیل سے پورے تھر کے علاقے میں خوشگوار تبدیلی آجائے گی کیونکہ گڈو بیراج کا کم وبیش 10 ہزار کیوسک پانی اس میں ذخیرہ کیاجاسکے گا جس میں سے 5ہزار کیوسک پانی اس کینال کے ذریعے تھر کینال کو فراہم کیا جائے گا جس سے تھر کے علاقے میں 4لاکھ 12 ہزار ایکڑ بنجر زمین پر کاشت ممکن ہوسکے گی۔اس میں سے ایک لاکھ 13 ہزار ایکڑ زمین کو پانی رینی کینال کے پہلے 110 کیلومیٹر پر محیط مرحلے کے ذریعے جو مکمل کیاجاچکاہے فراہم کیاجائے گا جبکہ بقیہ علاقے کو پانی کینال کے اس حصے سے فراہم کیاجائے گا جس کی تعمیر کاکام فنڈز کی عدم فراہمی کے سبب رکاہواہے۔
آبپاشی کے حکام کاکہناہے کہ تھر کے علاقے میں تمام قابل کاشت اراضی ایسے علاقے میں واقع ہے جہاںبارشوں کے سوا صاف پانی کا کوئی تصور نہیں ہے،واپڈا نے اس کینال کامنصوبہ سیلابی پانی کی نکاسی کیلئے پیش کیاتھا۔واپڈا حکام کاکہنا ہے کہ سیلابی پانی کی نکاسی کے ساتھ ہی اس کاکچھ حصہ کینال میں محفوظ کرلیاجائے گا جو علاقے میں کاشتکاری کے لئے استعمال ہوگا جبکہ اس کینال کے ذریعے سیلابی پانی کی نکاسی سے صحرا کی پیاسی زمین کو پانی ملے گا جس سے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگی اور اس سے استفادہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔
رینی کینال گھوٹکی کے علاقے کھینجو ٹاﺅن سے شروع کی گئی ہے اور گھوٹکی کے علاقے آرڈی 181 پر تھرکینال اس سے ملتی ہے ،اس اصل کینال کے ساتھ ایک اسکیپ چینل بھی تعمیر کیاگیاہے تاکہ کچھ اضافی پانی اس میں بھی ذخیرہ ہوسکے اور علاقے کے لوگوں کے کام آسکے۔
اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت یہ کینال مٹھی تک جائے گی اور اس کے ذریعے اس پورے علاقے کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ان کے مویشیوں کیلئے پانی اور چارے کی فراہمی کا بھی ذریعہ بن جائے گی۔تاہم ایسا اسی وقت ہوسکے گا جب اس کے دوسرے مرحلے کیلئے وفاقی حکومت رقم فراہم کرنے پر تیار ہوجائے اور کام کابلاتاخیر آغاز ہوجائے ،اس کی تکمیل سے اس پورے علاقے میں جولائی اگست کے دوران اضافی رقبے پر کاشت ممکن ہوسکے گی جس سے نہ صرف یہ کہ علاقے کے لوگوں کی غذائی ضرورت پوری ہوگی بلکہ ان کی آمدنی میں معقول اضافہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں غربت کم ہوگی اور فاقہ کشی اور کم غذائیت کی وجہ سے بچوں کی اموات کاسلسلہ ختم کرنے میں مدد ملے گی۔سرکاری ذرائع کے مطابق اس منصوبے کی نظرثانی شدہ لاگت کے مطابق اس کی تکمیل پر 43 ارب روپے خرچ ہوں گے جبکہ اس پروجیکٹ پر اب تک 18 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔اس مقصد کیلئے مزید رقم کی فراہمی کیلئے ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی کی منظوری کاانتظار ہے جس کے بعد ہی وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے اس پروجیکٹ کیلئے مزید رقم فراہم کی جاسکے گی۔
سندھ کے سابق سیکریٹری آبشاپی بابر آفندی کاکہناہے کہ سیلاب کے دنوں میں گڈوبیراج کو پانی کے شدید دباﺅ سے محفوظ رکھنے کیلئے گڈو بیراج کے بالائی علاقے میںکم وبیش ایک لاکھ کیوسک پانی کی گنجائش کی یک متبادل چینل کی تعمیر بھی از حد ضروری ہے ۔آفندی کاکہناہے کہ اگر گڈو بیراج پر 12 لاکھ کیوسک کاسیلابی ریلا آتاہے توا س سے ایک لاکھ کیوسک نکال دیاجائے تو اس سے اس ریلے کا زور بڑی حد تک ٹوٹ جائے گا اور اس متبادل چینل سے نہ صرف یہ کہ پانی بآسانی محفوظ طریقے سے نکالا جاسکے گا بلکہ اس سے اردگرد کے علاقوں کو وافر پانی میسر آسکے گا۔آفندی کا کہناہے کہ وفاقی حکومت پراس مقصد کیلئے رقم کی فراہمی کیلئے دباﺅ ڈالا جانا چاہئے بلکہ اگر ضرورت محسوس ہوتو اس پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے عالمی بینک سے رجوع کرنا چاہئے۔آفندی کاکہناہے کہ اس اسکیپ چینل کی تعمیر سے اچھرو تھر تک کے بنجر علاقے کو پانی فراہم کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔جس سے یقینا علاقے میںخوشحالی آئے گی۔
سندھ کی حکومت اس منصوبے میں اس لئے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے کہ اس کے ذریعے تھر کے وسیع علاقے کے لوگوں کو پینے اور دیگر ضروریات کیلئے پانی کی فراہمی کے ساتھ ہی علاقے میں کاشتکاری کیلئے بھی مناسب مقدار میں پانی دستیاب ہوسکے گا جس سے طویل عرصے سے بھوک اور بیروزگاری کے شکار اس علاقے کے لوگوں کے چہروں پر بھی خوشی کی لہر دوڑ سکے گی۔
اب دیکھنایہ ہے کہ وفاقی حکومت کے سربراہ میاں نواز شریف جو گزشتہ کچھ عرصے سے سندھ میں اپنی پارٹی کوزندہ کرنے کیلئے کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں سندھ کے تباہ حال علاقے تھر پارکر کے عوام کو بھوک، غربت اور بیروزگاری کے عفریت سے نجات دلانے کیلئے رینی کینال کی تعمیر کیلئے فنڈز جاری کرنے کے احکامات کب دیتے ہیں اور ان احکامات پر عمل ہونے میں مزید کتنا وقت لگتا ہے؟