مردہ قومی حمیت زندہ باد!
شیئر کریں
زریں اختر
حدیث مبارک ہے کہ ”اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ،کیوں کہ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والاہے ۔”خبر کی سرخی ہے کہ ”آرمی چیف کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ،دورہ کامیاب رہا” ،ذیلی سرخی جس میں کامیابی کی نوید کی نوعیت کا بیان یوں ہے کہ”پاکستان کی معاشی مشکلات پر قابو پانے میں مدد کے لیے پر عزم ہیں،سعودی سفیر” ۔
مجھے یہ خبر پڑھ کے اپنا آپ بڑا مجبور لگا۔ میرا مسئلہ قومی حمیت کا ہے لیکن اس کو قائم کرنااور برقراررکھنا نہ میرے آباء کے ہاتھ میں تھا نہ میرے ہاتھ میںہے، یہ میرے ملک کے حکمرانوں کے ہاتھ میںہے ،وہ منتخب و مشتبہ وزیر اعظم ہوں یا غیر منتخب و غیر مشتبہ، بے اختیارو بااختیار وزیر اعظم ہوں یا شوقین وغیر شوقین ؛یابہ نفس ِ نفیس خود افواج ِ پاکستان کے سربراہ؛ہماری قومی و اجتماعی عز ت نفس کا جو حال و حشر ہے، الفاظ کاچنیدہ خزینہ چن چن کرایسے مرچیلے فقرے ترتیب دیتا ہے کہ نمک مرچ کی برنیاں شرما جائیں: دماغ میں کھچڑی گلارہا ہے کیا؟، لو بن گیاکچومر،چٹنی ملاکر کھا جا، چوں چوں کا مربہ ہی ڈالاکر،کالم کا تو بھرتہ ہوگیا ۔ کھچڑی ، کچومر،چٹنی ،بھرتہ اور چوں چوں کا مربہ ؛ہمارے قومی پکوان بمعہ وطنی لوازمات۔اس پر اعتراض کیا ہے ؟ کھچڑی زود ہضم ،اس کے ساتھ کچومر اور چٹنی مفت،بھرتہ ذائقے کی تبدیلی کے لیے اور منہ میٹھاکرنے کے لیے چوں چوںکا مربہ ،اب بھی اگر سوادنہ آیا تو کسی کا کیا قصور،اوپر والوں کی کیا غلطی ؟
وہ طبقہ جو سفید پوش کہلاتاہے ،یا وہ افراد جو خود دار ہوتے ہیں ، جنہیں اپنی عزت ِ نفس کا پاس لحاظ ہوتاہے ،ان کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا زندگی کے کٹھن حالات کا دشوار ترین لمحہ ہوتاہے(جو ہماری خاطر ہمارے حکمران دل پر پتھر ،چٹان ،پہاڑ غرض جوملے وہ لے کر یہ لمحے خوشی خوشی جہاز میں بیٹھ کر اور شاہوں سے مل کر جھیل لیتے ہیں، ملک کے سربراہ جو ہوئے،کیا کچھ نہیں سہنا پڑتاانہیں غریب عوام کی خاطر)۔حالاں کہ قرض کو اسلام میں مستحسن نہیں سمجھا گیا(اب سعودی شاہ بھی کیا کریں،اسلامی بھائی چارے کی روایت بھلا دیں کیا؟)، جب کوئی فوت ہوجاتا تھاتو یہ پوچھا جاتاتھاکہ اس کے اوپر کسی کا قرض تو نہیں۔ ایسا بھی پڑھنے میں آیا کہ حضورۖ نے اس شخص کی نماز ِجنازہ نہیں پڑھائی جس پر قرض تھا۔ عوام کی نماز جنازہ ہو نہ ہو لیکن ہمارے بڑے جو ہمارے لیے کر رہے ہیں ان کی تدفین پر توپوں کی سلامتی پر کسے اعتراض ہوسکتا ہے؟
سقراط کے بارے میں بھی روایت ہے کہ جب اس نے زہر کا پیالہ پی لیا تھااور منہ پر چادر تان کر لیٹ گیا تھا تو پھر اچانک اس نے اپنے منہ سے چادر ہٹائی اور اپنے شاگرد کو مخاطب کرکے کہا کہ میرے اوپر فلاں شخص کا مرغ ادھار ہے ،اسے یاد سے لوٹا دینا۔آپ کیا سمجھ رہے ہیں اسے مرتے وقت مرغ بطور قرض یاد آیا ؟ مجھے تو لگتاہے سالم بھونا ہوگاجو یاد رہا۔
میرے فکری اُستاد شعبہ فلسفہ کے ڈاکٹر منظور احمد سے میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ کو سب سے مشکل کام کیا لگتاہے؟ انہوں نے کہاکہ کسی سے کوئی چیز مانگنا۔ میں نے کہا کہ دنیا کے معاملات ایسے چلتے ہیں ،لوگ قرض لیتے ہیں۔انہوں نے جواب دیاکہ ہاں لیکن مجھے خیال گزرتا ہے کہ اگر اس نے انکار کردیاتو۔ ہمارے نزدیک ‘تو ‘ کے بعد بات ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع یہاں سے ہوتی ہے، تو کیا؟ کسی اور سے مانگ لو،دنیا ختم تھوڑی نا ہوگئی۔
اس کنفیوز عوام کی ایک کنفیوژن ان بڑوں کے گھر وغیرہ ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ۔ شاہ صاحبان ہمارے ہاں آئیں گے تو انہیں کیا اسّی ایک سو بیس گز کے گھر میں ٹھہرائیںگے ،اتنے پر تو ان کے بیت الخلاء ہی ہوتے ہیں۔ کہاں اٹھیں گے ؟کہاں بیٹھیں گے؟ کہاں کیا کریں گے؟
اتفاق دیکھیں ادھر چیف میاں سعودیہ سدھارے ادھرمیاں وزیر اعظم کوبلوچستان کے سدھار کا خیال ریکو ڈک کی صورت میں آیا۔ میاںدوم (اول دوم کا اعزاز صرف برطانوی شاہی خان دان کا طرئہ امتیاز کیوں رہنے دیں)کے تازہ ترین ٹوئٹ کے مطابق جو اخبارنے ریکوڈک کی شہ سرخی کی تفصیلات میں بتائیںکہ ”پاکستان اور سعودیہ عرب ہر محاذ پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔”اس اتفاق میں کیا کچھ اتنی برکت کی توقع کی جاسکتی ہے کہ بلوچستان کے عوام بھی اس سے فیض یاب ہوسکیں؟