میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم کے نام صدر مملکت کا خط اور توہین عدالت کی تنبیہ

وزیراعظم کے نام صدر مملکت کا خط اور توہین عدالت کی تنبیہ

جرات ڈیسک
پیر, ۲۷ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط لکھ کر کہا ہے کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے وزیر اعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے، لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگراں حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کیلئے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔جمعہ کو ایوان صدر سے جاری اعلامیہ کے مطابق لکھے گئے خط میں کہاگیاکہ ماضی قریب میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بنیادی اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے واقعات کو اجاگر کیا،ایسے واقعات کے تدارک اور اصلاح کیلئے انہیں وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی ضرورت تھی۔صدر مملکت نے کہاکہ آرٹیکل 105 یا 112 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ای سی پی کو صدر کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کیلئے تاریخیں تجویز کرنے کا حکم دیا۔ صدر مملکت نے کہاکہ گورنر خیبرپختونخوا کو بھی صوبائی اسمبلی کیلئے ٹائم فریم کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگراں حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کیلئے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے نام خط میں لکھا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔صدر پاکستان کا اپنے خط میں کہناہے کہ 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر تھا، اس سال کے اقدامات سے اس انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید نیچے آئے گی۔ملک میں سیاسی بحران کی جو صورتحال اس وقت موجود ہے یہ نئی نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التواکے بعد جہاں ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام بڑھنے کا اندیشہ لاحق ہو چکا ہے وہیں سنگین آئینی بحران اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کے آثار پیدا ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال ہماری قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے بہرصورت لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ ملک میں پیدا ہونیوالے ان حالات سے پورا سسٹم بھی داؤ پر لگ سکتا ہے اور ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے سفاک و مکار دشمن بھارت کو بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع مل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے نشوونما پانے والے سیاسی انتشار کا نقصان ہمیں پہلے ہی ملکی معیشت کے کمزور ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں اپنی ناروا شرائط کے ساتھ مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے بدخواہ عناصر بھی ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں قومی سیاست میں ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی اپنی اناؤں سے ہٹ کر قومی اتحاد و یکجہتی کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کیلئے بہرصورت تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عمران خان کی زیرصدارت زمان پارک لاہور میں منعقدہ پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التواسے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے وکیل سید علی ظفر نے عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر بھی کر دی۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتے ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر دیئے۔ یہ آئینی اور قانونی فیصلہ نہیں۔ الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے پی ٹی آئی سپریم کورٹ اور حکمران اتحادی جماعتیں الیکشن کمیشن پر تکیہ کئے بیٹھی ہیں، ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی محاذ آرائیاں کرتی رہی ہیں۔ ملک میں اس وقت دو سیاسی دھڑے موجود ہیں، ایک عمران خان اور ان کے حماتیوں کا جبکہ دوسرا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا، جس میں عمران خان کی مخالف تمام جماعتیں شامل ہیں۔پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بڑا تنازع انتخابات ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت کی ڈیمانڈ ہے کہ ملک میں انتخابات کرائے جائیں جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں انتخابات کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے انتخابات کے دوران امن خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے عمران خان کو مختلف مقدمات میں بھی مصروف رکھا ہوا ہے اور عمران خان کی گرفتاری کیلیے کوشاں ہیں۔یہ وقت پاکستان کی بقا کے متعلق سوچنے کا ہے اور اس ضمن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ملک سے احتجاج کا خاتمہ ہو، سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی بند ہو اور سیاسی کارکنان کی پکڑ دھکڑ کو بھی روکا جائے۔ سیاسی قائدین کو ایک دوسرے کی پوزیشن کو سمجھنا ہوگا۔ بلاشبہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان کی اس مقبولیت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ پی ڈی ایم کی غلط پالیسیاں اور ان کے دور میں ہونے والی مہنگائی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عمران خان کی گرفتاری، مقدمات درج کرانے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ ملک میں شفاف انتخابات کیلیے تاخیری حربوں کے استعمال کے بجائے آئینی طریقہ کار کے مطابق عبوری حکومت کو تین ماہ میں انتخابات کرانے کا ٹارگٹ دیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ فوج کی مدد لی جائے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کے عنصر کو بھی ختم کیا جاسکے۔ سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں پھر عوام جسے چاہیں اپنا مینڈیٹ دیں اور باقی جماعتیں اسے تسلیم کرکے کارکردگی دکھانے کا مکمل موقع دیں۔ موجودہ دور میں سیاسی جماعتوں کے مابین محاذ آرائی کے بعد یہ کہنا انتہائی دشوار ہے کہ آئندہ چند دنوں اور چند ہفتوں میں کیا ہوگا، بس یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بحران میں اضافہ ہوگا اور جتنا اس میں اضافہ ہوا اتنا ہی انتشار اور بدامنی میں اضافہ ہوگا۔اس صورت حال میں کیا ہی اچھا ہو کہ ملک کی دیگر جماعتیں منتخب ہونے والی جماعت کی مخالفت کے بجائے ملک کی بہتری کیلیے اس کا ساتھ دیں اور اپنی خدمات پیش کریں۔ اسی طرح جیتنے والی جماعت کے قائدین بھی بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں کی روایات کا خاتمہ کرے
اور سب کو ساتھ لے کر چلے۔ملک سے اس بحران کا خاتمہ نہ ہوا تو نتائج ہم سب کو بھگتنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا ملک کے ادارے یا عوام، اگر ان کی کوئی اہمیت ہے تو اس ملک سے ہے لہٰذا اس ملک میں سیاسی استحکام، قیام امن اور ترقی انتہائی اہم ہیں۔ ملک کو واپس ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلیے عام شہری سے لے کر سیاسی قائدین تک اور سیاسی قائدین سے لے کر ملکی اداروں تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ملک سے الزام و انتشار کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا اور مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی انا کو ختم کرنا ہوگا اور ملک کی خاطر لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید نتائج ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہوں۔ آئین پاکستان میں تو ریاستی انتظامی اداروں کے اختیارات اور انکی حدود و قیود متعین ہیں۔ اگر تمام ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر فرائض منصبی ادا کریں تو سسٹم کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ادارہ جاتی ٹکراؤ کی کوئی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا ماضی بھی اس معاملہ میں بری مثالیں قائم کر چکا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی مفاداتی سیاست اور اقتدار میں شیرینی حاصل کرنے کیلئے ماورائے آئین اقدام کی راہ ہموار کرتے اور اس کیلئے جرنیلی آمروں کو اپنے کندھے پیش کرتے رہے جبکہ ہماری عدلیہ نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے ماورائے آئین اقدامات کو آئینی اور عدالتی تحفظ دینے کے راستے نکالے۔ چنانچہ اس وطن عزیز کے تقریباً 35 سال جرنیلی آمریتوں کی نذر ہو گئے اور بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے ابھی تک اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ اس کے باوجود کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے بعد باہم دست و گریباں انہی سیاسی قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر بحالی جمہوریت کی طویل اور انتہائی کٹھن جدوجہد بھی کرنا پڑی ہے‘ پھر بھی وہ جمہوری نظام کو ایک دوسرے کو قبول اور برداشت کرنے کے روادار نہیں اور آج بھی وہ اپنی اپنی مفاداتی سیاست کے اسیر ہو کر ماضی جیسے ماورائے آئین اقدام کے راستے نکالتے نظر آرہے ہیں۔آئین کا تقاضا تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا ہے تاہم ملک میں ایسے ناگزیر حالات پیدا ہو جائیں جن کے باعث 90 روز کے اندر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنا ممکن نہ رہے تو اسی آئین کے تحت کوئی متبادل راستہ نکالا جا سکتا ہے اس کیلئے یقیناً قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کے ذریعے عام انتخابات کے ایک ہی دن انعقاد پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر مفاداتی سیاست میں آئینی ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی کوشش کی گئی تو سسٹم کو تاراج کرنیوانے والے تھرڈ آپشن کے راستے ہی کھلیں گے۔ یہی آج ہماری قومی سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا امتحان ہے۔ وہ افہام و تفہیم سے کام لیں گے تو سسٹم کے ثمرات سے مستفید ہوتے رہیں گے بصورت دیگر انہیں بحالی جمہوریت کی ماضی جیسی کٹھن اور قربانیوں سے لبریز تحریک کیلئے تیار رہنا چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں