میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گندا پانی ری سائیکل کرکے پانی کی قلت پر قابوممکن

گندا پانی ری سائیکل کرکے پانی کی قلت پر قابوممکن

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭ پوری دنیا میں گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بناکر پانی کی قلت پر قابو پایا جاچکا ہے ٭ پاکستان کے دیہات و شہروں میں لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتااور لوگ ناقابل استعمال پانی استعمال کرنے پرمجبور ہیں
شہلا حیات
پاکستان جیسے ملک میں جہاں لاکھوں افراد انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ،جہاں پانی نہ ملنے کی وجہ سے فصلیں سوکھ جاتی ہیں اور کسان نان جویں کے محتاج ہوجاتے ہیں،اور ملک کے بعض علاقوں میں لوگوں کو اپنے پینے کے پانی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے گدھوں، خچروں اوراونٹوں پربیٹھ کر میلوں کاسفر طے کرکے گندے پانی کے جوہڑوں سے پانی حاصل کرنا اوراسی سے پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنا پڑتی ہے ،اس صورت حال کی وجہ سے پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں شرح اموات دیگر علاقوں سے بہت زیادہ ہے اور جن لوگوں کو تندرست کہاجاتاہے وہ بھی مکمل طورپر تندرست اوربیماریوں سے محفوظ نہیںہیں ،اور انھیں اپنی آمدنی کابڑا حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے علاج معالجے پر خرچ کرنا پڑتاہے ،گندے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور اسے صاف کرکے یعنی اس کی ری سائیکلنگ کرکے اسے دوبارہ قابل استعمال بنانے کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔پاکستان میں فطرت کو محفوظ بنانے سے متعلق بین الاقوامی یونین کے نمائندے محمود اے چیمہنے گزشتہ روزعالمی یوم آب کے موقع پر بیرٹ ہوجسن یونیورسٹی کے زیر اہتمام گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینا ر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پر قابو پانے کیلئے گندے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور اسے صاف کرکے دوبارہ قابل استعمال بنانے کی ضرورت کا احساس کرنا چاہئے۔
اس سیمینار کے مقررین نے پاکستان میں پانی کی قلت پر قابو پانے اور عوام کی پانی کی ضروریات کی تکمیل کے حوالے سے لوگوں میں پانی کی اہمیت کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے لوگوں میں پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان میں پانی کو محفوظ رکھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ حد تک بہتر طورپر استفادہ کرنے کا شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے اپنی ماہرانہ رائے پیش کیں۔اس موقع پر بیرٹ ہوجسن یونیورسٹی کے کراچی میں سالم حبیب کیمپس کے وائس چانسلر ڈاکٹر عارف صدیقی نے پاکستان میں پانی کے استعمال میں کفایت شعاری اور استعمال شدہ پانی کے دوبارہ استعمال کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے، ترقی کے پائیدار اہداف کے حصول میں یونیورسٹی کی جانب سے معاونت کرنے اور لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کی مہم میں شریک ہونے کااعلان کیا ۔
پاکستان میں سمندروں سے متعلق قومی انسٹی ٹیوٹ کی خاتون ماہر ڈاکٹر حنا بیگ نے پاکستان میں سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کی وجہ سے سمندروں کی حالت زار پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر حنا بیگ نے یہ واضح کیا کہ پاکستان میں خوراک کی قلت پر قابو پانے اور زرعی استعمال کیلئے وافر پانی کی فراہمی کیلئے گندے اور استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانا بہت ضروری ہے ۔ اس موقع پر انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ گندے پانی کو دریاﺅں، تالابوں اور سمندر میں دھکیلنے کی روش سے آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے،اور اس ملک کے عوام کو صحت مند آبی حیات مہیا کرنے اور مچھلی جھینگے اور دیگر آبی حیات کی برآمدات میں اضافہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سمندروں اوردریاﺅں کو آلودگی سے پاک کرنے پر توجہ دی جائے ۔ڈاکٹر حنا نے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے اور عوام کو صاف ہوا اور پانی کی فراہمی کیلئے سمندروں کو آلودگی سے پاک کرنے کی اہمیت اجاگر کی اور بتایا کہ پوری دنیا میں گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بناکر پانی کی قلت پر قابو پایاجاچکاہے اوراس طرح ایسے ممالک میں بھی جہاں پانی کے وسائل کی بہت زیادہ کمی ہے، فارمز کو پانی کی فراہمی کابڑا ذریعہ یہی صاف کردہ پانی ہے اور اس کی وجہ سے ان ملکوں میں زرعی فارمز کی تمام ضروریات پوری ہورہی ہےں۔ اس لئے پاکستان بھی اس تکنیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زراعت کیلئے پانی کی ضروریات کو پورا کرسکتاہے اور اس طرح زرعی پیدا وار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتاہے جس سے نہ صرف یہ کہ ملک میں خوراک کی ضرورت پوری ہوگی اور ہمیں بعض اجناس کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ان کی برآمد کے ذریعے وافر زرمبادلہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے ۔
ورلڈ وائیڈ نیچر فنڈ کے کرتا دھرتا بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان ان ممالک میںشامل ہے جو پانی کی شدید قلت سے دوچارہیں اور جہاں زراعت ، صنعت اور گھریلو ضرورت کیلئے پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں پانی کی قلت کی صورت حال اپنی جگہ، بڑے شہروں میں بھی لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملتااور لوگ اپنی پانی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے آلودہ اور بسا اوقات ناقابل استعمال پانی استعمال کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام کی بھاری اکثریت صاف شدہ پانی سے محروم ہے اور اس شہر کے لوگوں کو صاف پانی کے نام پر جو پانی فراہم کیاجارہاہے اس کا معیار گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ میں واٹر بورڈ کی کارکردگی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران کھل کرسامنے آگیا۔ کراچی حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر ، نوابشاہ، لاڑکانہ اوریہاں تک کہ پنجاب کے سب سے بڑے شہر لاہور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی پینے کے صاف پانی کا ایسا موثر نظام موجود نہیں جس کے تحت عوام کو کم از کم پینے کیلئے ہی صاف پانی فراہم کیاجاسکے جس کی وجہ سے ان شہروں کے لوگوں کو اپنی پانی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے زیر زمین پانی پر اکتفا کرنا پڑتاہے جومکمل طورپر پینے کے قابل ہونے کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ حکومت عالمی یوم آب کے رواں سال کے موضوع ” پانی ضائع کیوںہو؟“ کے جواب تلاش کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائے اور ملک میںپانی کی قلت پر موثر طورپر قابو پانے کیلئے لوگوں میں پانی کی بچت کا شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ہی ضائع ہوجانے والے گندے پانی کو صاف کرکے دوبارہ قابل استعمال بنانے کیلئے عالمی اداروں کے تعاون سے ری سائیکلنگ پلانٹ لگائے۔جب تک ایسا نہیں کیا جائے گانہ صرف یہ کہ پانی کی قلت پر قابو پاناممکن نہیں ہوسکتا بلکہ پانی کی کمی میں اضافہ ہوتاجائے گا اور ہمارے سونا اگلنے والے کھیت بنجر میدانوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں