جاپانی وزیر اعظم بھی کرپشن اسکینڈل میں پھنس گئے
شیئر کریں
الزامات میں معمولی صداقت بھی ہوئی توپوری حکمراں جماعت کو زبردست سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتاہے
جاپان کے تمام اخبارات نے اس انکشاف کو شہہ سرخیوں میں شائع کیا،شنزوایبے کی تحقیقات کی پیشکش
انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات اور مالی امدادکے حوالے سے مخالفین کے اعتراضات
جوناتھن سوبل
جاپان کی انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والی انتہا پسند پارٹی کی طلبا تنظیم نے دعویٰ کیاہے کہ جاپان کے وزیر اعظم شنزو اَے بے نے 2015ءکے دوران ان کو مالی امداد فراہم کی تھی۔اگر چہ جاپان کے وزیر اعظم نے اس دعوے کی فوری طورپر سختی کے ساتھ تردید کی ہے اور اس حوالے سے اپنے اکاﺅنٹس کی جانچ پڑتال کرانے کی بھی پیشکش کی ہے لیکن اس گروپ کے اس دعوے کے بعد ان کے خلاف ایک نیا اسکینڈل کھڑ اہوگیاہے اورانتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات اور رابطوں کے حوالے سے اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم پر لگائے جانے والے یہ الزامات اگر درست ثابت ہوتے ہیں یا ان میں معمولی سی صداقت ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے نہ صرف یہ کہ وزیر اعظم شنزو اَے بے بلکہ پوری حکمراں جماعت کو زبردست سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔تاہم وزیر اعظم شنزو سے امداد حاصل کرنے والے گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے نے ابھی تک اپنے اس دعوے کے ثبوت میںکچھ پیش کرنے سے گریز کیاہے، یعنی یہ دعویٰ ابھی تک زبانی حد تک ہی محدود ہے اوریہی وجہ ہے کہ جاپان کے عوام اس حوالے سے شک وشبہے کا اظہار تو کررہے ہیں ، وزیر اعظم شنزو کے مخالفین اس دعوے کو جاپان کے عوام کے سامنے درست ثابت کرنے کے لیے وزیر اعظم شنزو اَے بے کی سابقہ تقریروں سے ایسے حوالے تلاش کرکے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے دائیں بازو کی جانب ان کے جھکاﺅ کو ثابت کیا جاسکے۔
جاپان کی انتہائی دائیں بازو کے خیالات رکھنے والی انتہا پسند پارٹی کے تعلیمی گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے کے اس انکشاف کے بعد کہ ان کا گروپ حکومت سے مالی امداد وصول کرتارہاہے ایک اسکینڈل کی شکل اختیار کرلی ہے اور جاپان کے تمام اخبارات نے اس انکشاف کو نہ صرف شہہ سرخیوں میں شائع کیاہے بلکہ وہ اس حوالے سے دیگر الزامات اور اپوزیشن رہنماﺅں کے بیانات کو بھی خصوصی اہمیت دے رہے ہیں۔
اس انکشاف کے بعد جاپان کی بااثر نیوز ایجنسی نیٹ ورک نیوز نے انتہا پسند گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے کے آبائی علاقے کے بعض ارکان پارلیمنٹ سے رابطہ کیا اور ان تمام ارکان پارلیمنٹ نے کہاہے کہ وہ اس معاملے پر وزیر اعظم شنزے سے جواب طلب کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کے منتظر ہیں ، انہوں
نے یہ بھی بتایا کہ اس انکشاف کے بعد اب پارلیمنٹ کا اگلا اجلاس دھماکہ خیز ثابت ہوسکتاہے ۔
انتہا پسند گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے کے جاپان کے بعض اہم سیاسی رہنماﺅں کے ساتھ تعلقات ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے وزیر اعظم شنزو پر لگائے جانے والے الزام یا ان سے مالی مدد حاصل کرنے کے اعتراف نے وزیر اعظم کا سیاسی مستقبل داﺅ پر لگادیا ہے۔یاسو نوری کیگولکے چین اورکوریاکے شدید مخالفین میں تصور کیے جاتے ہیں اور وہ جاپان میں فوجی تیاریوں کے حامی ہیں اور اس کے لیے جاپان کے پورے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جاپان کے تعلیمی نظام میں بچوں کو ذہنی طورپراپنے دشمنوں کامقابلہ کرنے کا جذبہ ابھارا جانا چاہیے۔
یاسو نوری کیگولکے کے گروپ کے حکومت کے اعلیٰ حلقوںتک رسائی اور تعلقات کی خبریں سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آئی تھیں جب یہ انکشاف ہواتھا کہ اعلیٰ حکام نے یاسو نوری کیگولکے کے موریٹومو گاکوئین گروپ کو رعایتی شرح سے سرکاری زمین خریدنے کی اجازت دینے کافیصلہ کیاہے۔یہ سرکاری زمین ایک ایلیمنٹری اسکول کے قیام کے لیے استعمال کی جائے گی۔ یاسو نوری کیگولکے جس کی تعمیر اور جسے چلانے کے لیے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں اور دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے لوگوں سے چند ہ جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ وزیر اعظم شنزو کی اہلیہ اکی اس گروپ سے گہری ہمدردی رکھتی ہیں اور حال ہی تک وہ اس مجوزہ اسکول کی پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہی تھیںتاہم اس حوالے سے اعتراضات کی بھرمار ہونے کے بعد گزشتہ ماہ ہی انہوںنے اس عہدے سے استعفیٰ دیاہے۔لیکن وزیر اعظم شنزو اَے بے کاکہناہے کہ ان کا اس گروپ سے براہ راست کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔انہوں نے نہ تو خود اس گروپ کو کوئی عطیہ دیا نہ اپنی اہلیہ کے ذریعہ اور نہ ہی حکومت میں شامل یا انتظامیہ کے کسی فرد کے ذریعے اس گروپ کی کوئی مدد کی ہے ۔چیف کیبنٹ سیکریٹری یوشی ہائیڈ سوگا نے بھی یاسو نوری کیگولکے نے اس انکشاف کے فوری بعد اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہاتھا کہ حکومت کی جانب سے اس گروپ کو کبھی کوئی امداد نہیں دی گئی۔وزیراعظم شنزو اَے بے اس سے قبل یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انہوں نے یا ان کی اہلیہ نے اس گروپ کی مدد کی ہے ، کسی پر بھی کسی طرح کاکوئی دباﺅ ڈالا ہے یا کوئی ترغیب دی ہے تو وہ سیاست ہی سے ریٹائر ہوجائیں گے۔
جاپان کے ایک معروف سیاسی تجزیہ کاراٹسو ایٹو کاکہنا ہے کہ وزیراعظم اگر کسی کو اپنی جیب سے کوئی عطیہ دیتے ہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ انہوںنے اس گروپ کو کوئی عطیہ دیاہے تو اس حوالے سے ان کے سابقہ بیانات کی روشنی میں یہ ثابت ہوگا کہ وہ اب تک قوم کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ جو ایک اخلاقی جرم ہے اور اس سے پوری سیاست میں ہلچل مچ سکتی ہے۔دوسری جانب انتہا پسند گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے کاکہناہے کہ انہیں یاد پڑتاہے کہ ستمبر 2015ءمیں وزیر اعظم شنزو اَے بے نے انہیں نقد رقم کے علاوہ دیگر عطیات دیے تھے، اگرچہ انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات ظاہر نہیں کیں لیکن کہا کہ وہ اس حوالے سے تفصیلات پارلیمنٹ میں بتائیں گے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اوساکا میں انتہا پسند گروپ کے قائدیاسو نوری کیگولکے نے ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ کو بتایاہے کہ ستمبر 2015ءمیں وزیر اعظم کی اہلیہ نے انہیں 10 لاکھ ین کا عطیہ دیاتھا ۔یہ عطیہ اس وقت دیاگیاتھا جب وزیر اعظم کی اہلیہ نے کنڈرگارٹن اسکول میں تقریر کی تھی۔یاسو نوری کیگولکے سے بات چیت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کاکہناہے کہ یاسونوری کاکہناہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس رقم میں سے کچھ رقم وزیراعظم کی تھی۔
اس حوالے سے حقیقت کیا ہے، اس کاپتہ تو اب پارلیمنٹ کے اجلا س میںیاسو نوری کیگولکے کی جانب سے اپنے الزامات کے حوالے سے پیش کیے جانے والے ثبوت دیکھ کر اور اس حوالے سے ان پر ہونے والی بحث سے ہی چل سکے گا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یاسو نوری کیگولکے کے اس انکشاف نے پورے جاپان کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے اور وزیر اعظم شنزو اَے بے کی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔