میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپریشن ضرب عضب ہو یا ردالفساد ،،کامیابی کے لیے حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرناہوگا!

آپریشن ضرب عضب ہو یا ردالفساد ،،کامیابی کے لیے حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرناہوگا!

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ مصطفی کمال نے ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد پہلے سے جاری آپریشن مکمل کیے بغیر نیا فوجی آپریشن ‘رد الفساد©’ شروع کرنے پر اعتراض کیاہے۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ایس پی چیئرمین مصطفیٰ کمال نے پاک فوج کی جانب سے شروع کیے گئے نئے آپریشن پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ‘ضرب عضب پورا کیے بغیر رد الفساد کیوں شروع کیا گیا؟’ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کے 20 میں سے 18 نکات حکومت کو جب کہ صرف 2 نکات فوج کو حل کرنا تھے، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت نے اپنے 18 نکات پر عمل کرلیا یا پھر وہ نکات بھی فوج کے حوالے کردیے گئے؟اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کو ناکام نہ بھی کہا جائے تو بھی اس کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جو ہونے چاہئےں تھے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے اعتراض کیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پختونوں کو ‘ناجائز اور ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے©©’۔ عمران خان کا اشارہ اس ماہ لاہور اور سیہون میں ہونے والے دھماکوں کی جانب تھا۔عمران خان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب دہشت گردی کی آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑنے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے اور رینجرز کو پنجاب میں بھی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے حوالے سے مصطفی کمال کی پیش کردہ اس دلیل کو رد نہیں کیاجاسکتا۔ آپریشن ضرب عضب اورنیشنل ایکشن پلان پر عمل کے حوالے سے پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے ذمہ کا کام تو پوری تندہی اور جانفشانی کے ساتھ مکمل کیا لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں سے کوئی بھی اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکی بلکہ افسوسناک حد تک ان ذمہ داریوں سے اغماض کی مرتکب رہی ہیں۔جبکہ یہ بات واضح ہے کہ ‘اگر نیشنل ایکشن پلان پرپوری طرح عمل نہیں ہوا تو نیا آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوسکتا’۔
اس صورتحال کے تناظر میں پنجاب میں رینجرز آپریشن اور پیرا ملٹری فورس کو دیے گئے خصوصی اختیارات پر بھی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ،اور یہ سوال کیاجاسکتاہے کہ ‘کیا چند ماہ کے لیے رینجرز کو پنجاب میں تعینات کرنے سے وہاں امن قائم ہوجائے گا؟’کیا چند ماہ کے اندر رینجرز وہ کارنامے انجام دے سکتی ہے جو پنجاب پولیس ہر علاقے کے چپے چپے سے اور ہر علاقے کے اچھے بُرے لوگوں کو اچھی طرح پہچاننے کے باوجود انجام دینے سے قاصر رہی ہے۔یہاں یہ یاد دلانا غلط نہیںہوگا کہ 25 سال قبل کراچی میں بھی رینجرز پہلے پہل 6 ماہ کے لیے آئی تھی، مگر آج بھی وہ موجود ہے اور 25 سال کا طویل عرصہ اس شہر میں گزارنے کے باوجود کسی نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رینجرز میں دہشت گردوں اورانتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج کراچی میں چند سال قبل کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ سکون محسوس نہ کیا جاتا،اگر کراچی میں اس طویل قیام کے دوران رینجرز کو اپنے اہداف پورے کرنے میں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تو اس کا سبب رینجرز کی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں تھی بلکہ اربا ب اختیار کی بعض سیاسی مجبوریاں ، مصلحتیں اور بعض مفادات تھے جن کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق بعض اوقات رینجرز کے اہلکاروں کو اپنے آپریشن ادھورے چھوڑ کر واپس جانے پر بھی مجبور ہونا پڑا تھا۔
موجودہ صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مکمل کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمراں اس حوالے سے اپنے ذہنوںکو صاف کریں اور کامیابی کے حصول کے لیے آپریشن کی کوئی واضح سمت متعین کریں۔حکمرانوں کو کوئی ایسی سمت متعین کرنی چاہئے جس کے تحت کوئی بھی شخص یہ یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ اب ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ یقینی ہے اوردہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو بھی یہ یقین ہوجائے کہ اب اس ملک میں ان کا جادو نہیں چل سکے گا اور دہشت گردی یا انتہاپسندی کی کارروائیاں خود ان کی اپنی موت کاسامان بن جائیں گی۔
ملک میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے جن خدشات اور اعتراضات کا اظہارکیاہے انھیں دیوانے کی بڑ تصور کرتے ہوئے نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے ،عمران خان کا یہ اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ایک پورے نسلی گروہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے قصوروار ٹھہرایا جا نا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے ، حکمراں اور ہمارے قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ادارے اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کراچی آپریشن میں ان کو خاطر خواہ کامیابی اور عوام کا بھرپور تعاون نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ اس آپریشن کو بوجوہ کراچی کی اکثریتی آبادی کے خلاف آپریشن کا رنگ دے دیا گیاتھا اور غیر اعلانیہ طورپر ایک زبان اور ثقافت کے حامل لوگوں کو کسی جواز کے بغیر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردیاگیاتھااوران کی حب الوطنی کو جو قیام پاکستان سے اب تک کسی بھی شک وشبہے سے بالا رہی ہے ،مشکوک قرار دے دیاگیا،یہاںتک کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجرا اور تجدید تک کے مرحلے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک شروع کردیا گیا ، دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں نے اس صورت حال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ جان دینے پر تیار رہنے والے لوگوں کو رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متنفر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا ثبوت 22اگست کولندن سے کی جانے والی زہر آلود اور اشتعال انگیز تقریر سے لگایا جاسکتاہے ۔تناﺅ سے بھرپور اس صورتحال میں ہمیں ضرورت ہے کہ آبادی کے کسی بھی حصے اور ملک کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر کوئی خاص لیبل لگانے سے اجتناب کیاجائے، اس میں دو رائے نہیں کہ یہ تعصب کئی دہائیوں میں پروان چڑھا ہے اور آج اس صورت میں نظر آ رہا ہے۔عوامی رجحان یہ ہے کہ سارا ملبہ ‘غیر ملکیوں پر ڈال دیا جائے جو کہ ہماری تہذیب کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں۔ عوامی سوچ کے مطابق یہی وہ شیطان صفت لوگ ہیں جو ہماری پرامن اور تحمل مزاج قوم پر تباہی لانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کئی سال سے جاری پرتشدد کارروائیوں میں ‘ہمارا بھی کسی نہ کسی طرح ہاتھ رہا ہے۔اس فارمولے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ دنیا بھر میں بار بار استعمال کیا جاتا ہے، بھلے ہی ان لوگوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے جن کے خلاف یہ نافذ کیا جاتا ہے۔ نسلی بنیادوں پر قصوروار ٹھہرانا اب ماضی کا قصہ بن جانا چاہیے۔ اس تعصب کی ان ممالک میں کوئی جگہ نہیں جنہوں نے بذاتِ خود ان تعصبات کی وجہ سے ہونے والے شدید قتل و غارت اور نفرت انگیزی کا مشاہدہ کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ یہ اشتعال انگیز لیبلنگ ان تمام افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے جو کہ اپنی نسل کی وجہ سے شک کے دائرے میں نہیں آتے۔ اگر انسانی بنیادوں پر نہیں، تو کم از کم دہشت گردوں کو جامع اور ہم آہنگ انداز میں نشانہ بنانے کے لیے ہی اس تعصب سے جان چھڑائی جانی چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں