اتنی نہ بڑھا پاکی داماںکی حکایت
شیئر کریں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ایم تھری میں کار کمپنی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت وطن عزیز میں معاشی و اقتصادی محاذ پر بہتری لائی ہے۔ ماضی کے مشکل حالات کی نسبت اب سرمایہ کار آسانی سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں لہٰذا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ بجلی اور گیس کا بحران ختم کر دیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے اپنی حکومت کی کارکردگی کااعلان کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار برس میں ملکی اور غیر ملکی قرضے چڑھانے میں ریکارڈ قائم کردیا ہے اور گزشتہ ساڑھے چار برس میں اتنے قرض لیے گئے ہیں کہ اس سے قبل 10برس میں بھی نہیں لیے گئے تھے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کے بارے میں لن ترانی کرتے ہوئے اس بات کاذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ موجودہ حکومت کے ساڑھے 4سالہ دور میں ملکی برآمدات میں مسلسل کمی ہوئی ہے ،اور برآمدی میں کمی ہونے کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ اوردرآمدات وبرآمدات کاتوازن بری طرح خراب ہواہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے پیر ومرشد سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے گئے نواز شریف اوران کے حواریوں کو عوام اور ملک کی نہیں صرف اپنے مفادات کی فکر ہے انھیں اطمینان ہے کہ انھوں گزشتہ ساڑھے 4برس کے دوران حکومتی اللوں تللوں کے لیے جو قرض لیے ہیں وہ قرض قوم بھگتے گی ان کا اپنا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے ہوئے ان قرضوں کا محض سود چکانے کے لیے بھی انھیں جس طرح مزید قرض لینا پڑ رہا ہے،آنے والی کسی بھی حکومت کو یہی کچھ کرنا پڑے گا ،اور پھر وہ اس حکومت کو ناکام بنانے کے لیے جس کی دھمکی ان کے چہیتے وزیر ریلوے دے چکے ہیں قرض پر قرض لیے جانے کاشور مچاکر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کریں گے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کے عجب جواز اور معیار کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیاہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری آرہی ہے ،گویا سرمایہ کاری میں نسبتاً آسانی نہ ہوتی تو حکومت کے لیے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا جواز نہیں تھا اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی ظاہر کرنے سے گریز کررہے ہیں کہ سرمایہ کاری میں زیادہ تر اضافہ سی پیک پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوا جبکہ اگر چینی کمپنیوں اورسی پیک سے متعلق دیگر صنعتوں کے لیے آنے والی سرمایہ کاری کوالگ کرلیاجائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ گزشتہ ساڑھے4برس کے دوران پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی شرح کم ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ کم ہوئی ہے ۔ جہاں تک موجودہ حکومت کی کارکردگی کاتعلق ہے تو اس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ خاقان عباسی نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ نومبر میں لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ نومبر میں وزیر توانائی نے لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا اعلان کر دیا تاہم احتیاطاً یہ بھی کہہ دیا کہ لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں ہو گی جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کمپنیوں پر غیر ضروری نوازشات اورایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہ کرنے والے یونٹوں کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کے باوجود حکومت لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ،اب حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے لوڈشیڈنگسے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو چور اور نادہندہ قرار دینے کی کوشش کررہی ہے؟ حکومت کی اس روش سے فائدہ اٹھاتے بجلی کمپنیوں نے صارفین پر غیر ضروری اور بلاجواز بھاری بل لادنے کاسلسلہ شروع کردیا ہے ،اس حوالے سے کراچی میں کراچی الیکٹرک نے تو لوٹ مار کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں کو لاکھوں روپے کا بل بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک میں سارے ہی نابینا بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ اگر بل ٹھیک کرانے جاؤ تو مطالبہ ہوتا ہے کہ پہلے بل ادا کرو اس کے بعد دیکھی جائے گی۔ یہ رویہ کے الیکٹرک سے پہلے کے ای ایس سی کا بھی تھا، شاید اسی سے کے الیکٹرک نے سیکھا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے اضافی بل کے خلاف درخواست لینے سے بھی انکار کردیا اور یہی کہا کہ پہلے بل جمع کراؤ پھر بات ہوگی۔ اس سے بڑا ستم یہ ہے کہ بجلی صارفین کی داد رسی کے لیے کوئی نہیں۔ محتسب اعلیٰ کی بات بھی نہیں سنی جاتی۔ ایسے میں حکمرانوں کے خلاف بددعائیںہی نکلیں گی جس کی انہیں شایدکچھ پروا بھی نہیں کہ ان کی آج تو آرام سے گزررہی ہے، عاقبت کی خبر خدا جانے ۔ موجودہ حکومت کی یہ ناقص کارکردگی صرف بجلی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ موجودہ حکومت کے ساڑھے 4سالہ دور حکومت میںگیس کی قلت بھی وبال جان بن چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے وزیر پیٹرولیم کی حیثیت سے ایل این جی درآمد کرنے کافیصلہ کرنے کاجواز ہی یہ پیش کیاتھا کہ ایل این جی کی درآمد کے بعد ملک میں گیس کی قلت ختم ہوجائے گی ،اس طرح اب ایل این جی کی درآمد کے بعد گیس کی کمی اور لوڈشیڈنگ کا جواز نہیں ہے۔ وزیراعظم محکموں کے گورکھ دھندہ قسم کے اعداد و شمار دکھا کر بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کررہے ہیں اور اس طرح عوام کوبیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ گیس اور بجلی ایسی چیزیں ہیں جو ہر ایک کی روزمرہ کی ضرورت ہے اس کی کمی بیشی کا اندازہ عوام اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے گھر کے جلتے ہوئے بلب اور چولہوں کے ذریعہ کرتے ہیں، اور وزیراعظم کے دعوے سن کر گھر پہنچنے کے بعد جب وہ اپنے گھر کابلب یاچولھا بجھاہوا دیکھیں گے تو وزیر اعظم کے دعووں کی ان کے نزدیک ان کی کیاحقیقت رہ جائے، وزیر اعظم کوبات کرتے ہوئے حقائق کو سامنے رکھناچاہئے اوراس بات کاانتظار نہیں کرنا چاہئے کہ لوگ پاور سٹیشن کا گھیرائو کریںاور خواتین ہانڈیاں توے اٹھا کر احتجاج کریں ۔ انھیں اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے کہ گیس کئی علاقوں میں آتی ہی نہیں اور کئی علاقوںمیں پریشر کی شدید کمی ہوتی ہے۔ حکومت کو اتنا ہی کریڈٹ لیناچاہئے جتنا کام کیا اور اپنی باقی مدت میں گیس کی قلت دور کرنے کی کوشش کرے۔
وزیر اعظم کو اس بات کابھی اعتراف کرنا چاہئے کہ سرکاری اخراجات پورے کرنے کے لیے اب حکومت کے پاس پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی وغیرہ ہیجیسے شعبے رہ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت ان کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کررہی ہے۔ پیٹرول و مٹی کے تیل وغیرہ کی قیمتیں ہر ماہ بڑھائی جارہی ہیں اور اب یہ خبر ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 7روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ خدشہ ہے کہ ایسی تجاویز حکمران بخوشی منظور کرلیتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو اضافہ تجویز کیا جاتا ہے حکمران ازراہ عنایت اس میں تھوڑی سی کمی کر کے احسان دھرتے ہیں۔ کیا حکمرانوں کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ صرف پیٹرول کی قیمت بڑھانے سے ہر شے کی قیمت بڑھ جاتی ہے حتیٰ کہ ان چیزوں کی بھی جن کا براہ راست کوئی تعلق پیٹرول سے نہیں ہوتا۔ ڈیزل سے چلنے والے ذرائع نقل و حمل بھی جو اشیا لاتے ہیں ان کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ تو ضرور ی ہو جاتا ہے اور یہ اضافہ قیمت میں اضافے کے تناسب سے نہیں، مرضی سے ہوتا ہے۔ پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمت بڑھانے سے زرعی اجناس، پھل اورسبزیاں بھی مہنگی ہو جاتی ہیںکیونکہ ان کو منڈی تک لانے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ غرض ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے اور عوام مزیدبدحال ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ حکومت کے پاس سوائے ان دل خوش کن اعلانات کے کچھ نہیں ہے کہ پاکستان کی معیشت ترقی کررہی ہے، مہنگائی پر قابو پالیا گیا ہے اور بجلی اتنی وافر ہے کہ اب کہیں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنی تقریر لکھنے والوں کو واضح ہدایت دیں گے کہ وہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے اتنی زیادہ مبالغہ آرائی نہ کریں کہ تقریب میں بیٹھے ہوئے لوگ بے ساختہ ہنسنے اورمذاق اڑانے پر مجبور ہوجائیں۔