میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کاش !ہم صنف ِنازک ہوتے ۔۔۔

کاش !ہم صنف ِنازک ہوتے ۔۔۔

منتظم
هفته, ۲۶ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

سجاد گل
نجانے کیوں کبھی کبھی دل میں یہ چاہ اٹھتی ہے کہ” کاش ہم بھی صنفِ نازک ہوتے“،آپ غلط نہ سمجھیں ، میرا دل اس لیے ایسا نہیں کرتا کہ میں بھی ہیل والے جوتے پہنوں ، یا ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن بناﺅں ،اور رنگ برنگے کپڑے پہنوں، یاپھر چوڑی کنگن اور گجرا، یاانگوٹھی چھاپ اور چھلا پہنوں ۔اگر اسی کام کا ہی شوق و تجسس ہوتا تو خواجہ سرا بن کر بھی اس حسرت کو پورا کیا جاسکتا تھا ،مگر یہاں مسئلہ تھوڑا دوسری نوعیت کا ہے۔
وہ مسئلہ ہے عورت کی اہمیت کا،نہ تو عورت جیسی اہمیت اس معاشرے میں ہم” مظلوم مردوں“ کو ہے اور نہ ہی بے چارے خواجہ سراﺅں کو۔ اور اب تو معاشرے کا مزاج ہی کچھ ایسا بن گیا ہے کہ عورت کو ہر جا،ہر جگہ زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
بندہ کسی بینک کی لائن میں کھڑا ہوتا ہے ، اچھا خاصا بندے کا نمبر آیا ہی چاہتا ہے۔۔کہ آگے سے ٹائی پہنے مسکراتا ہوا چہرہ کہتا ہے ”سر آپ تھوڑا پیچھے ہو جائیں، لیڈیز فرسٹ ۔“اسی طرح کسی ڈاک خانے کی قطار میں باہر کڑکتی دھوپ میں کھڑے آپ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں،آگے سے موٹاچشمہ پہنے گنجے سر والے انکل کہہ دیتے ہیں”تھوڑا پچھے ہٹو جی! پہلے زنانیاں نو آون دو©©“۔اب ایسی صورت حال میں کوئی بیواقوف ہی ہو گا جو مرد ہونا پسند کرے۔
عورتوں کو ہمارے معاشرے میں کتنی اہمیت حاصل ہے ، اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں، فیس بک پر کوئی صنف نازک پوسٹ کرے تو سہی ،پھر لائیک در لائیک اور کمنٹس پر کمنٹس ۔حالانکہ ہمارے معاشرے کی اکثر عورتیں فیس بک پر ”آدھی تصویر “ہی لگاتی ہیں،جس میں چہرہ کم و بیش ہی نظر آتا ہے ،جسے دیکھ کر کم از کم انگریز تو یہی کہتا ہوگا کہ” اس بے چاری کے یا تو دانت بہت بڑے ہیں یا پھر ایشیا سے تعلق ہے ،ہو سکتا ہے اسکے شوہر نے اسکے چہرے پر تیزاب پھینک دیا ہو،یا پھر چیچک کے نشانات کی وجہ سے ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔“
ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر لڑکیاں ہاتھوں پر مہندی لگا کر ، یا پھر کہیں اور سے مہندی کے ڈیزائن کی فوٹو اپ لوڈ کر کے پوسٹ کر دیتی ہیں۔۔۔۔اور پھر کمنٹس ماشااللہ ۔۔۔ اللہ نظرِ بد سے بچائے۔ اور ہماری طرح کے لادین لوگوں کے کمنٹس ”نائس۔۔۔ سوسویٹ۔۔۔سپر۔۔واو“۔
اور کچھ تو اپنے بالوں کی تصویریں بنا بنا کر لگاتی رہتی ہیں،اور لوگ کمنٹس میں پوچھ رہے ہوتے ہیں ، اے فرینڈ کون سا شیمپو استعمال کرتی ہیں؟اتنے حسین بالوں کا راز کیا ہے؟مگر مجال ہے کہ کوئی آدمی یہ سوچے کہ اس سر میں جوئیں بھی ہوسکتی ہیں ،ذرا اس سے متعلق سوال کر کے دیکھتے ہیں۔
اور کوئی مرد پوسٹ کر دے، اف پہلے تو اپنے ملازم یا کسی قریبی رشتہ دار کے علاوہ لائیک کرنے والا ہی کوئی نہیں ملتا،اگر لائیک کر بھی دے تو کہیں مل جائے تو اسکا احسان جتانا نہیں بھولتا، اوسر جی آج کل فیس بک پر تو آپ چھائے ہوئے ہیں،میں نے لائیک کیا تھا، نوٹیفکیشن تو آ گیا ہو گا۔کمنٹس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور کو ئی کر بھی دے تو صرف نکتہ چینی، یار پیٹ بڑھ رہا ہے ورزش کیا کرو،بڈھے ہو گئے ہوجی۔اور کوئی صنف ِنازک لائیک یا کمنٹس کرے توبہ توبہ۔۔۔ہاں اپنی بیوی کو حکم دے کر یہ کام ضرور لیا جاتا ہے کہ” میںنے پوسٹ کی ہے ،اس پر اچھے سے کمنٹس کر دو“ ، وہ بے چاری کمنٹس تو کردیتی ہے ، اس کے بعد اس کی آئی ڈی پر فرینڈ ریکویسٹ کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ بیوی خواہ مرد کی ہی ہے مگر ہے تو صنفِ نازک ہی ناں، عورت کا تو نام ہی کافی ہے۔اسی لیے تو بہت سارے لوگ لڑکیوں کے نام کی آئی ڈی بنا کر استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ ایسا ایک واقعہ اس ناچیز کے ساتھ بھی ہوا ،مگر اس میں اس لڑکے بچارے کا کوئی قصور نہیں تھا، قصور ہمارا ہی تھا۔ آئی ڈی تھی سحر خان کے نام سے، اور پروفائل پر فوٹو بھی افغانستان کی کسی ایکٹر کی تھی جسے ہم بالکل نہیں جانتے تھے، اُدھر سے ایس ایم ایس کاآغاز ہوا۔۔
”اے“
جی بولیں
”آپکی شاعری بہت اچھی ہوتی ہے “
حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ
”کوئی بات نہیں“
اور میرے افسانوں کے بارے میں کیا خیال ہے
”آپ افسانے بھی لکھتے ہیں؟؟“
جی جی آپ نے پڑھے نہیں؟
”نہیں تو“
اوکے میں ابھی آپکو اپنے کچھ افسانے بھیجتا ہوں، آپکی حوصلہ افزائی میرے لیے باعث شرف ہو گی
”جی ضرور بھیجیں“
ہم نے افسانے بھی بھیج دیے، جہاں تک ہمارا خیال ہے انکو کافی حد تک اپنی شخصیت سے متاثر بھی کر دیا۔
مگر کچھ عرصہ بعد راز کھلا کہ جن سحر خان کو ہم ایک نازک اندام سی صنفِ نازک سمجھ رہے ہیں وہ کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے ”والی“ نہیں بلکہ ”والے “سحر خان ہیں۔
اس دن ہمیں صنفِ نازک کی اہمیت کا احساس بہت شدت سے ہوا۔
تھانہ ہو یا کچہری ،عدالت ہو یا جرگہ وپنچائت،ہر جگہ پر ہی عورت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
آپ کی لڑائی کسی مرد سے ہوگئی ، آپ نے اسے تھپڑ مار دیا یا اس سے تھپڑ کھا لیا،دیکھنے والے آ کر یہ کہتے ہوئے معاملہ خلاص کرا دیں گے کہ نہ لڑیں بھائی ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔
اور خدانخواستہ کسی عورت سے ایسی صورت حال پیدا ہو جائے اور بات تھپڑ کھا نے یا لگانے تک پہنچ جائے لو ۔۔تو پوری عمر کا طعنہارے یہ وہی ہے جسے عورت نے تھپڑ ماراتھا، اور اگر اللہ نہ کرے عورت کو تھپڑ مار دیا،پھر کیا ہو گا ہڈی پسلی ایک۔
آپ نے اخبار میں نوکری کا اشتہار پڑھا ، فائل بغل میں دبائے کسی دفتر کے باہرجا بیٹھے ہوں اور دوسرے طرف ایک عدد صنفِ نازک بھی انٹرویو کے لیے ٹانگ پر ٹانگ رکھی بیٹھی ہو اور اوپر سے جگہ بھی ایک ہی بندے کی خالی ہو ،تو مہربانی فرما کر اپنا ٹائم ضائع کرنے کے بجائے باہر آکر مداری کا تماشا دیکھ لیں کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ صنفِ نازک امیدوار ہوتے ہوئے آپکو نوکری مل سکے۔
صنفِ نازک تو صنفِ نازک ہے ناںاسی لیے تو کچھ لوگ نوکری کا اشتہار دیتے ہوئے پہلے ہی وضاحت کر دیتے ہیں کہ آسامیاں صرف خواتین کے لیے خالی ہیں،مرد زحمت نہ کریں۔ اب آپ ہی بتائیں ۔۔! اس سب کے باوجود کوئی آدمی مرد ہونا پسند کرسکتاہے ؟نہیں ناں۔۔۔! اسی لیے ”کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“ ۔۔۔کہ کاش ہم بھی صنفِ نازک ہوتے!!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں