عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے!
شیئر کریں
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز آئینی ترمیم کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ افراطِ زر کی شرح اور مہنگائی کے اشاریوں میں بھی کمی ہورہی ہے جوکہ اطمینان بخش ہے انھوں نے دعویٰ کیا ک حکومت ملک کی معاشی ترقی اور عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرر ہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مہنگائی میں کمی کے حوالے سے یہ دعویٰ کن اعدادوشمار کی بنیاد پر کیاہے یہ وہی بہتر طورپر جانتے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام ابھی تک حکومتی اقدامات پر اس لئے مطمئن نہیں ہیں کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود مہنگائی کا عفریت انہیں کاٹنے کو دوڑتا نظر آ رہا ہے۔ عوام کو ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور روزمرہ استعمال کی اشیاکے نرخوں میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اگر وزیراعظم کی جانب سے مہنگائی میں کمی کے بارے میں دعوے درست ہیں تو مہنگائی میں حقیقی معنوں میں کمی نہ آنے کی وجہ یقینا ناجائز منافع خور مافیاز ہیں جو عوام کو ریلیف کے اقدامات پر حکومت کی ایک نہیں چلنے دے رہے ہیں اور وزیراعظم اور ان کے تمام مصاحب عوام کی پریشانیوں میں کمی کرنے کیلئے ان مافیاز کی گردن ناپنے کے بجائے اپنے تمام وسائل اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے اور پابند سلاسل رکھنے پر صرف کررہے ہیں ۔جبکہ وزیراعظم اور ان کے مصاحبین کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ محض گرانی میں کمی کے دعووں کے ذریعہ عوام کو مطمئن نہیں کیاجاسکتا اور منافع خور مافیا پر قانون کی مکمل عملداری کئے بغیر عوام کو مہنگائی کے شکنجے سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔
وزیراعظم اور ان کے مصاحب اور مربی سب ہی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ3 سال کے دوران موجودہ حکومت کے نگراں اور موجودہ دور میں پاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کاتجاہل عارفانہ تھا ہر ایک اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور اس کودوام بخشنے کی سازشوں میں مصروف تھااو ربدطینت تاجر ہر طرح کے احتساب کے خوف سے آزاد حکومت کی اس بے اعتناعی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتوں میں بلاجواز من مانا اضافہ کرتے جارہے تھے ، دوسری جانب حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام آدمی کا کچومر نکال دیاتھااس کی وجہ سے روزمرہ ضرورت کی ہر چیز اتنی زیادہ مہنگی ہوگئی کہ عام آدمی کے لیے یہ قیمتیں ناقابل برداشت ہوچکی ہیں ، مہنگائی نے عام آدمی کا جو حشرکیا، وہ مرے کو مارے شامدار کے مترادف ہے۔ نگران حکومت آئی تو اس کی طرف سے بھی پہلے پہل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا اورپی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کے اختتام پر پیٹرول کی قیمت ساڑھے تین سو کے قریب تھی جس میں مزید اضافہ ہوا اور پھر اس میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔ اب پیٹرول کی قیمت 250 روپے سے بھی قدرے کم ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ان کے نرخوں میں کمی ہو جائے تو بھی مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ بجلی کی قیمت توکبھی کم نہیں ہوئی۔ اس کا اثر مہنگائی میں اضافے کی صورت میں دیکھا گیا ہے لیکن پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے بعدجس تناسب سے مہنگائی میں کمی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوئی۔ منافع خور اب بھی ناجائز منافع کما رہے ہیں۔ لہٰذا ناجائز منافع خوروں پر سخت ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔سرکاری گاڑیوں میں مفت کا سرکاری پیٹرول استعمال کرنے والے سرکاری افسروں کو کیا پتا کہ مسافر ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کس طرح لٹ رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار بھی یہی افسران اور پوش طبقہ ہے جو اگر کبھی خریداری کرنے چلے جائیں تو وہ نرخ نہیں پوچھتے اور آرڈرکر کے منہ مانگی رقم دکانداروں کو ادا کر دیتے ہیں۔ مہنگائی اورکرایوں میں نمایاں کمی کے بغیر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں مل سکتا۔ پاکستانی معیشت براہ راست ڈالر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مزید کم ہوگئیں تو پاکستان کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اپنے ہاں مہنگائی پر قابو پاسکے، لیکن اس کے لیے حکومت کو ڈالرکی شرح تبادلہ کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ پاکستان سے ڈالرکی بیرون ملک اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ سابقہ نگران واتحادی حکومت اور پھر موجودہ حکومت نے ڈالرکی اسمگلنگ پر قابو پانے کے دعوے تو بہت کئے لیکن ان دعووں کے باوجود ڈالر کی قیمت میں مطلوبہ حد تک کمی ممکن نہیں ہوسکی جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ ڈالر اب بھی افغانستان اسمگل ہورہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ڈالر کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔حکومت کی جانب سے معیشت کے مستحکم ہونے اور اسے مزید تقویت ملنے کے دعوے تو روزانہ کی بنیاد پرکیے جا رہے ہیں اور اس کی عملی اور اچھی مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہوئی ہے جو کہ معیشت کو مستحکم بنانے اور طویل المدتی نمو کے لیے ایک پختہ بنیاد رکھنے میں حکومت کی کامیابی کی تصدیق ہے۔عالمی معاشی ادارے بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہترکی ہے۔مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں، تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے،حکومت کے دعوے کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار توانائی کے بیش بہا وسائل سے ہے، جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا،آج ہمارامعاشی انجن پیٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے۔لیکن ہم سے کمتر وسائل رکھنے والی ریاستیں بھی متبادل توانائی کے نت نئے وسائل کے استعمال کی جستجو میں لگی ہوئی ہیں اور توانائی کے بحران کے خاتمے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ان ریاستوں کے رہنما اقتصادی اہداف تک رسائی کو قومی خوشحالی کی کلید سمجھتے ہیں اور اپنے اقتدار سے زیادہ اپنے ملک کے عوام کی بہتری اور خوشحالی کیلئے سوچتے ہیں، مگر ہماری معیشت کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ اسے عدم شفافیت کے باعث پیدا شدہ قیاس آرائیوں، الزامات اور تضادات کا سامنا ہے۔ ادھر ملک میں تشدد، لاقانونیت اور انتہا پسندی کے عفریت نے سیاسی و معاشی استحکام کے حصول کو اقتصادی صحرا کے طویل اور اعصاب شکن مسافت کا روپ دے دیا ہے۔شاید ہی کسی ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں مبصرین اس طرح کی رائے کا اظہار کرتے ہوں جیسا عالمی مبصرین پاکستان کی معیشت کے بارے میں کرتے ہیں ،ان نام نہاد مبصرین کو اس طرح کی رائے کے اظہار کا موقع ہم نے خود ہی فراہم کیا ہے اس حقیقت سے کون انکار کرسکتاہے کہ ہم سب نے مل کر پورے نظام کو برباد کر رکھا ہے۔ میرٹ کی اس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ حق دار ناامید ہوچکے ہیں، تعلق داروں کوکھلے عام عہدوں پر فائزکیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہم ہرگزرتے دن کے ساتھ کچھ نہ کچھ گنوا رہے ہیں، قوم پر قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی کو نہیں معلوم کہ پیسہ کہاں لگ رہا ہے؟ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو شاید یہ نظر نہیں آتا یاا نہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی وجہ سے تمام کاروبار، صنعتیں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ عام آدمی کی غربت دورکرنے کے لیے مفید، مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ آبادی کا ایک قابلِ ذکر حصہ خطِ افلاس کے نیچے بدترین حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔اس کے لیے دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی کا حصول بے لگام مہنگائی کی وجہ سے آج بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی معیارِ زندگی کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہے۔ ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اشرافیہ کی قربانی بھی بہت ضروری ہے۔دنیا کی کوئی حکومت اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی، لیکن ہمارے حکمراں ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر کے اخراجات میں اضافہ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے،جبکہ موجودہ صورت حال کا تقاضہ ہے کہ حکمراں پلاٹوں کی تقسیم، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا اور مراعات کی بندر بانٹ کا سلسلہ ترک کردیں اور اپنے اخراجات کو ملکی آمدنی کے مطابق رکھنے کی کوشش کریں۔ ملک میں اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاتفریق سخت ترین کریک ڈاؤن کیا جائے اور اس کیلئے سب سے پہلے سرحدوں پر تعینات عملے اور خاص طورپر افسران اور ان کے رشتہ داروں کے اثاثوں کا حساب لیاجائے کہ سرحدوں پر تعیناتی سے قبل ان کے اثاثے کیا تھے اور ان کے اور ان کے پیاروں کے بینک اکاؤنٹس میں کتنی رقم تھی اور سرحدوں پر تعیناتی کے بعد اس میں کتنا اضافہ ہوا اور اس اضافے کے ذرائع کیاتھے ۔ اس طرح کے سخت اقدامات نظام کا مستقل حصہ ہونے چاہئیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ بھی اچھی بات ہے لیکن مقامی سرمایہ کارکی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے تاکہ ملک میں صنعتی پہیہ بلا تعطل چلتا رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک ایسا لائحہ عمل جوکاروبار اور صنعت کو فروغ دے، نظام کا مستقل حصہ ہوتا ہے۔ کسی ایک شعبے پر وقتی طور پر توجہ دینا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ بیک وقت ان سب مسائل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، حکومت جو پیسہ فضول خرچیوں میں ضایع کردیتی ہے اسے ریاستی اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس عمل کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔عوام مہنگائی کی جس چکی میں پس رہے ہیں اُس کے پیش نظر یہ پیسہ اُن پر لگانا زیادہ ضروری ہے لیکن اُس کے لیے وقتی ریلیف نہیں بلکہ مستقل ریلیف کو ترجیح دینا ہوگی۔ اس کی سیاسی قیمت ضرور چکانا پڑے گی لیکن اب سیاست بچانے کے لیے ریاست کو مستقل خسارے کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔