کوئٹہ میں بیانیے کی ایک اور شکست
شیئر کریں
رضوان الرحمن رضی
نہ صاحب نہ، ایسا نہ کریں، ایسا نہیں ہوا کرتا۔ قومیں بندوقوں کے زور سے وجود میں نہیں آیا کرتیں ۔ جی ہاں قومیں تلوار وں سے نہیں بلکہ نظریوں سے تشکیل پاتی ہیں، نظریے بیانیوں کو جنم دیتے ہیں اور بیانیے اذہان کو مسخر کرتے ہیںاور یوں زبان زدِ عام ہو جانے والے یہ بیانیے لوگوں کے لاشعور کا حصہ بن کر انکے طریق ہائے زندگی بنتے ہیں اور ان کے اذہان کو ایک لڑی میں پرو کر ایک جتھے یا گروہ کوایک قوم بنا ڈالتے ہیں۔
جی ہاں ! لیکن آپ چلے ہیں وطن فروشی کے عوض بھیک میں ملے ڈالروں کے بدلے قومی بیانیہ بدل کر اذہان کو بدلنے؟ ایسا نہ ہوسکا اور نہ ہی ہو سکے گا، بھائی صاحب۔ بھلے جرمن این جی او کی مالی معاونت سے آپ پورے ملک کی درسی کتب سے اسلام کو کھرچ کھرچ کر ان کو اس سے لاتعلق کر دیجئے، ان میں سے جہاد اور اسلام کو گالی کی طرح نکال کر پھینک دیجئے، چوتھی جماعت کے بچوں کی دینیات میں اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت ، ہندو مت، بدھ مت کی برابر کی تعلیم کر دیجئے لیکن ان کتب کو امریکیوں کی مرضی اور ضروریات کے مطابق پڑھانے والے اساتذہ کہاںسے لائیں گے؟ اس کا حل تو یہی ہے کہ اپنے سیکنڈری بورڈبند کرکے سارے بچوں کو کیمبرج کے امتحان دینے پر لگا دیجئے اور ہمارے پنجاب کے خادمِ اعلیٰ تو اس کے لیے خاصے سرگرم بھی ہیں۔
ہر کام قرض سے اور قرض بھی وہ کہ تیس سال بعد جس کی ادائیگی اگلی نسل کرے گی ، اور بمع سود کرے گی ۔لیکن بے اعتبارے اتنے کہ قرض کی رقم دینے والے اس کو خرچ کرنے کا عمل اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے (اپنے مقاصدکے لیے) خرچ کرواتے ہیں۔ تف ہے آپ کی ساری جدوجہد پراور وطن فروشی پر
یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
یہ تمام پاپڑ بیل کر، عزت نیلام کرکے اس تمام عمل سے آپ نے کیا بیانیہ نکالا ؟”دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے“؟ آپ کے اس بیانیے کو ہر خودکش بچہ اپنے ساتھ ہوا میں اڑا کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نہیں آپ کا نظریہ شکست کھا گیا، شکست ،مجرد شکست۔ ہر محاذ پر ہمیشہ کی طرح شکست اور ظاہر ہے مانگے تانگے نظریات اور امداد کے ساتھ وصول کیے گئے بیانیوں سے جنگیں تھوڑی جیتی جاتی ہیں؟
جی ہاں ہر دوسرے روز کسی نہ کسی چوراہے پر خود کو بارود کے ساتھ اڑانے والوں کو آپ اپنی دلیل سے قائل ہی نہیں کر پارہے اور وہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ وہ بچہ جسے علم اور مہارت حاصل کر کے اس معاشرے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالتے ہوئے اپنے خاندان اور ارد گرد کے لوگوں کے لیے جان وار جانا تھا لیکن وہ اپنے ہم وطنوں کی جانیں لے کر معاشرے میں تباہی کا باعث بن کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
کبھی اس طرح بھی امن آیا ہے؟ نہیں جناب نہیں ، روس کی تمام تر فوجی کروفر کے سامنے آہنی دیوار کے اندر بھی چیچن لوگوں نے اپنی قومیت اور اس میں گندھی اسلامیت کو زندہ رکھا، وہ روس کے کمزور ہونے کے بعد بھی پلٹ پلٹ کر آتے ہیں اور یہ بات دنیا کے ماتھے پر کر جاتے ہیں کہ روسی نظریہ اس کی زیر تسلط نواحی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ اس کے پیٹ کے اندر بھی پٹ چکا ہے۔ اور شائد وہ اس اقلیت کو کبھی قائل ہی نہیں کرپایا۔ آج بھی چیچن کسی نہ کسی ریلوے اسٹیشن اور یا بھرے بازار میں اپنی موجودگی کا احساس دلا جاتے ہیں، کیوں کہ روس افغانستان میں ہتھیاروں کی نہیں نظریے کی جنگ ہارا تھا۔
آپ کا بیانیہ اس کو قائل کررہا ہے کہ یہ پولیس والے ہیں جنہوں نے ان کے باپ اور چچا کی لاشیں بلوچستان میں سڑک کے کنارے پھینکی تھیں، (کیوں کہ فہرست سات سمندر پار سے آئی ہوئی تھی؟ ) یہ ہیں وہ سپاہی جنہوں نے تمہارے باپ کو شہر جاتے اٹھایا تھا اور پھر اس کی لاش جناح بیراج سے کچھ یوں ملی کہ ساتھ میں پیغام تھا کہ اگر اس کو باپ کے طور پر شناخت کیا تو پورے خاندان سمیت اسی کے پاس پہنچا دیے جاو¿گے۔ اس کے بعد اس بچے کومناواں لاہور میں یا کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی کالجوں میں گھس کر مرجانے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک پاتی کہ قبائلی معاشرے میں اپنے پرکھوں کے خون کا بدلہ لیتے ہوئے مرجانا ہی امر ہوجانا ہوتا ہے۔
مانگے تانگے کا بیانیہ مسلط کرکے آپ معاشرے کی سلامتی کی کبھی بھی ضمانت نہیں دے سکتے۔ بالکل بھی تو نہیں۔
پتہ نہیں دلیل کی زبان میں بات کرنے کا مشورہ دینے والا ہر شخص تمہیں گھٹیا کیوں لگتا ہے؟ شاید ہمیں دلیل کی زبان آتی ہی نہیں، روز ان کو سوشل میڈیا پر بھارتیوں اور گوروں کے سامنے بے دلیل ہوتے دیکھتا ہوں تو سر پیٹ لیتا ہوں، اپنی تاریخ، جغرافیے اور معاشرتی علوم سے ناآشنا یہ ٹڈی دَل ہر بات ایسے کرتے ہیں کہ ابکائی آ جاتی ہے۔
اپنا اچھے سے اچھا مقدمہ شاندار طریقے سے ہر بین الاقوامی فورم پر ہارنا کوئی ہم سے سیکھے ۔ دلیل یا زبان سے بات کرنے کا مشورہ دینے والوں کی گردن مار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ عمران خان نے ایک دفعہ مذاکرات کی بات کی، یہ آج تک اس کا جرم ہے۔ اور ہر ہر موقع پر اس کو یہ طعنہ سننا پڑتا ہے۔ اور ساتھ میں ہر بین الاقوامی فورم پر یہ بھی سننا پڑتا ہے کہ یہ وہ کمال کی فوج ہے جو کہتی ہے کہ ”ہمارے ملک کو باہر کے دشمن سے نہیں اندر اپنے لوگوں سے خطرہ ہے“ تو کیا یہ غیر ملکی فوج ہے؟ اور ہمیں دن رات بتایا جاتا ہے کہ لوگ اپنے ہم وطنوں پر تباہ کن اسلحہ کے استعمال پر ہمارے پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں؟
”مرحوم مشرقی پاکستان “میں بھی ہم نے یہی کیا اور پھر وہاں سے ایسے بھاگے کہ مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ بنگلہ بندھو اب بھارت کی شہ پر ہمارا پیچھا کرتے آتے ہی ہوں گے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں پاک فوج کے ان افسروں کی حوالگی کا مطالبہ کردیں جنہوں نے مشرقی پاکستان میں سال 1971کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
جی ہاں اور کوئی مشرف جیسا ہمارے اوپر مسلط ہوا تووہ ڈالر لے کر ایسا کر بھی ڈالے گا اور پھر بڑے فخر سے ہمایوں گوہر صاحب کے صاحبزادے سے ایک عدد کتاب لکھوا کر اس میں اعتراف کرے گا کہ اس نے کس طرح (بے شرمی کی حد تک بڑھی ) جی داری سے لوگوں کے بچے تک پانچ ہزار ڈالر کے عوض امریکیوں کو بیچے تھے؟ کمال ہے۔
فرض کریں مقبوضہ کشمیر ہمارے پاس ہوتا اور اس میں ایسی ہی مہم چل رہی ہوتی جیسی اس وقت بھارت کے خلاف چل رہی ہے تو ان کو خارجی، تکفیری اور جہنم کے کتے کہہ کر ان پر ایف سولہ سے بمباری کرچکے ہوتے اور جناب زید زمان حامد جیسے ذہنی مریض مفتی اپنی ایرانی النسل بیگم کے پہلو سے ایسے فتاویٰ کے ساتھ پورے معاشرے پرحملہ آور ہو چکے ہوتے۔
اب پتا چلا کہ بھارت کا ڈھیلا ڈھالا وفاق کیوں قائم ہے؟ اور ہمارے مضبوط وفاق کو کیوں ہر وقت خطرہ ہوتا ہے؟ اس لیے ہر ہونے والا خودکش دھماکا آپ کے بیانیے کی شکست کا اعلان کرتا ہے۔ڈالرلے کر امریکی جنگ لڑنے کی بجائے اس میں سے نکل آئیے۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کو ریاست کے عوام کو فراہم کرنے کے قابل بنائیے تا کہ کوئی بھی مخصوص تعلیم سے اذہان و قلوب کو تبدیل کر کے ریاست کے خلاف کام نہ کر سکے۔ مانگے تانگے کے بیانیوں سے کوئی ایک جنگ نہیں جیتی جا سکتی کجا کہ آپ اس سے قوم سازی کی بات کریں؟بات انصاف کی فراہمی سے شروع ہو گی۔ لال مسجد کے طلبہ کے قاتلوں سے لے کر، ڈاکٹر شازیہ، میراکبر بگٹی تک تمام قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائیے، دشمن کا بیانیہ خود بخود شکست کھا جائے گا۔