عدالت نے کے الیکٹرک کو کے ایم سی ٹیکس وصولی سے روک دیا
شیئر کریں
سندھ ہائی کورٹ نے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی سے روکتے ہوئے سماعت دس دن کیلئے ملتوی کر دی ہے۔ پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں بجلی کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکسوں کی وصولی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ یہ وہی ٹیکس ہے جو کے الیکٹرک وصول کرے گا؟ صفائی تو ہو نہیں رہی ہے شہرمیں، لوگ تپے ہوئے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں کیوں وصول کررہے ہیں؟ شہری نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے۔ کے ایم سی کے پاس طریقہ کار موجود ہے۔ کے الیکٹرک کی گاڑیوں پر کچرا پھینکا جارہا ہے۔ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ہے جو وصولی کرے۔ مرتضی وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے پارک بنانا ہے جس پرعدالت نے کہا کہ تو وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے؟ ایڈمنسٹریٹر کراچی نے جواب دیا کہ ہم نے کوشش کی تھی ریکوری کرنے کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کے الیکٹرک کا تو حکومت سے تنازع چل رہا ہے۔ کیا یہ پیسے آپ کو کے الیکٹرک والے دیں گے؟ ضلعی کونسل کی قرارداد دو جون 2008 آپ نے جمع کرائی ہے۔ مرتضی وہاب نے جواب دیا کہ 2008 سے میونسپل کنسروینسی ٹیکس کے نام سے یہ ٹیکس لگ رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ دو ارب روپے کا اعلان کیا تھا روڈ بنانے کے لیے جس پر ایڈمنسٹریٹر کراچی نے جواب دیا کہ ہمیں ڈھائی ارب روپے ملے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ سٹی کونسل اس وقت فںکشنل ہے کیا؟ وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال جواب نہیں ملے ہیں۔ وکیل کے الیکٹرک نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے بھی جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے جبکہ مرتضی وہاب نے جواب دیا کہ ابتدا میں سالانہ 16 کروڑ روپے آئیں گے اس کے بعد سوا تین ارب روپے آئیں گے۔ عدالت نے پوچھا کہ پراپرٹی موٹر وہیکل ٹیکس لیا جا رہا ہے کتنا مل رہا ہے کراچی کو؟ مرتضی وہاب نے جواب دیا کہ موٹر وہیکل سے متعلق حکومت سے بات کررہا ہوں۔ عدالت نے پھر سوال کیا کہ دُکانوں پر بینکوں پر لگے ہوئے اشتہارات کی فیس کون لے رہا ہے؟ اس کا کوئی ڈیٹا موجود ہے؟ سندھ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو ٹائٹل میں ترمیم کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سی ای او کے الیکٹرک کی جگہ کے الیکٹرک کو فریق بنایا جائے۔ اس حوالے سے دائر تمام درخواستیں ایک ساتھ منسلک کر دی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔