آصف زرداری اور پی پی رہنما جنرل پرویز مشرف کے الزامات کامدلل جواب دیں
شیئر کریں
جنرل پرویز مشرف کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری پر مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعات میں حصہ لینے کے الزامات کے بعد ملک میں ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیاہے ،خاص طورپر جنرل پرویز مشرف کے اس بیان نے قدرتی طورپر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے تن بدن میں آگ لگادی ہے جس کااندازہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے جس میں انھوں نے گزشتہ روز کہا ہے کہ پرویز مشرف کمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ گئے اور دبئی جاکر ڈانس کرتے ہیں اگر وہ آصف زرداری کی طرح جیل کاٹیں تو پتہ چل جائے گا کہ کون شیر اورکون بکری ہے۔ سکھر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ملک کے حالات ابتر ہیں اور اداروں کا ٹکراؤ بھی جاری ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ کسی ادارے کا پارلیمنٹ سے ٹکراؤ نہ ہو پارلیمنٹ کو کمزور کرنے والا پاکستان کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔خورشید شاہ نے سابق صدر پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف 10 سال تک خاموش تھے، اب تیس مار خان بن گئے ہیں اور بیرون ملک بیٹھ کر بیانات دے رہے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ جن کو جیل اور موت کا ڈر ہو انھیںقوم اور عوام کی باتیں زیب نہیںدیتیں، انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہم بیرون ملک نہیں بھاگتے اور نہ ہی ہم ڈرتے ہیں، اگر پرویز مشرف اتنے ہی شیر ہیں تو پاکستان میں رہ کر ہماری طرح حالات کا مقابلہ کریں، بے نظیر کی طرح ملک میں واپس آئیں، بھٹو کی طرح سیاست کریں اور آصف زرداری کی طرح جیل کاٹیں تو پتا چل جائے گا کہ کون شیر اور کون بکری ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں سابق صدر آصف علی زرداری کے الزامات کے جواب میں دعویٰ کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل سمیت بھٹو خاندان کی تباہی کا ذمہ دار زرداری ہے۔ (اسی لیے) انہوں نے اپنے 5 سالہ دور صدارت میں بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات نہیں کرائی۔پرویز مشرف نے اپنی صفائی میں اور بھی بہت کچھ کہا ہے۔ پرویز مشرف کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد زرداری کی بیٹی سمیت پیپلز پارٹی کے تمام رہنماؤں نے ان باتوں کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ایسی باتیں پہلے بھی کر چکے ہیں اگر وہ واقعی سچے ہیں، تو واپس وطن آئیں اور عدالت میں اپنی صفائی دیں کیونکہ وہ بے نظیر قتل کیس میں عدالت کو مطلوب ہیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بیرون ملک بیٹھ کر، اپنے الزامات کے ذریعے ایک نیا پنڈورہ بکس کھولنے یا دوسرے لفظوں میں حقائق کو گڈمڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اْنہوں نے یہ باتیں کر کے، لاکھوں لوگوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ان دونوں رہنماؤں کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ آج بھی ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد بے شمار ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ مقتولین کے اصلی قاتلوں تک نہیں پہنچا گیا۔ بلکہ بعض لوگ تو زرداری پر بھی اس لیے سخت تنقید کرتے ہیں کہ اْنہوں نے5سال حکومت کی اور اْن کی محبوب لیڈر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا اوریہ بات صحیح بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ بہت بڑی فروگزاشت ہے اْسے اقتدار میں آ کر سب سے پہلے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پکڑنا چاہئے تھا،اور آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کی یہی وہ غلطی یاکوتاہی ہے جو اس معاملے میں خود آصف زرداری کے کردار پر حرف زنی کاموقع فراہم کرتی ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ عوام آصف زرداری کے بارے میںجنرل پرویز مشرف کے بیان میں حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ جنرل پرویز مشرف کایہ کہنا بالکل درست ہے کہ قتل کے واقعے کے بعد یہ نکتہ سب سے زیادہ اہمیت کاحامل ہوتاہے کہ اس قتل سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہوسکتاہے اور ظاہر ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے سب سے زیادہ فائدہ آصف زرداری کو ہی ہوا،ایک طرف انھیں بے نظیر کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کاموقع ملا اور دوسری جانب انھیں بے نظیر زرداری کے تمام اثاثوں کی ملکیت بھی حاصل ہوگئی ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلکہ خود آصف زرداری پرویز مشرف کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات او ران الزامات کو درست ثابت کرنے کیلیے دئے گئے دلائل کو غلط ثابت کرنے کیلیے مدلل بیان دیتے اور عوام کو یہ بتاتے کہ وہ اپنے اس اعلان کے باوجود کہ وہ بے نظیر کے قاتلوں کوپہچانتے ہیں اپنے دور حکومت میں ان قاتلوں کوگرفت میں کیوں نہیں لاسکے، انھوں نے بے نظیر بھٹوکے زیر استعمال بلٹ پروف گاڑی کی چھت کیوں کٹوائی،اورا ن کاپوسٹ مارٹم کیوں نہیں ہونے دیا۔ اب بھی اگر پیپلز پارٹی سنجیدہ ہے تو آصف زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو پرویزمشرف کے الزامات کا ٹھوس جواب دے تاکہ عوام کو حقائق کاعلم ہوسکے۔
ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ پبلک کرنے سے حکومت کاگریز۔ دال میں کالا ہونے کا ثبوت
اخباری اطلاعات کے مطابق ہوم سیکرٹری پنجاب نے ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل لاہورہائی کورٹ میں دائرکردی ہے جبکہ مولانا طاہر القادری کی پارٹی نے رپورٹ کی کاپی متاثرین کو فراہم نہ کرنے پر ہوم سیکریٹری اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کردی ہے ۔ہوم سیکریٹری پنجاب نے جو اپیل دائر کی ہے اس میں یہ موقف اختیار کیاگیاہے کہ آئینی درخواست میں تحریری جواب سنے بغیرہی فیصلہ جاری کیا گیا ہے، جوڈیشل انکوائری پبلک کرنا یا نہ کرنا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے اس لیے عدالت ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم دے دیاتھا۔ فاضل عدالت نے ہوم سیکریٹری پنجاب کو عدالتی فیصلے پر فوری عمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھاکہ عدالتی انکوائری رپورٹ کی کاپیاں ورثا کو دی جائیں۔
یہ سانحہ 17 جون 2014کو ماڈل ٹائون میں پیش آیا تھا۔ جس میں پولیس پر مبینہ طورپرمولانا طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک کے ہیڈ کوارٹر کے باہر احتجاج کرنے والوں پر گولی چلا نے کا الزام ہے جس کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ اس کی وجوہات اور اصلیت جاننے کے لیے، خود وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایاتھا۔ لیکن اس کمیشن کی جانب سے رپورٹ پیش کئے جانے کے بعد پنجاب کی حکومت نے اس رپورٹ کی کاپی ہلاک شدگان کے ورثا کو فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے رپورٹ کو عوام کے سامنے نہ رکھنے کا فیصلہ کیاتھااور یہ موقف اختیار کیاتھا کہ اس رپورٹ کو عام کردیاگیاتو اس سے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی مگر فاضل عدالت نے رپورٹ عام کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے۔ جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے۔ جمہوریت میں ایسے وحشیانہ واقعات نہیں ہونے چاہئیں اور اگر کہیں بے احتیاطی سے ایسا ہو جائے تو پھر عوام اور متاثرہ فریق کو اس کی تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہئے۔
پنجاب حکومت اور خود کو خادم اعلیٰ کہنے والے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی بار بار یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ اگر اس سانحہ کے حوالے سے ان پرمعمولی سی بھی انگشت نمائی کاپہلو ثابت ہواتو وہ ایک لمحہ تاخیر کے بغیر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے اوراس کے ذمہ داروں کوکیفر کردار تک پہنچانے سے گریز نہیں کریں گے لیکن رپورٹ سامنے آنے کے بعد انھوں نے اس کو عام ہونے سے روکے رکھا اور اب لاہور ہائیکورٹ کے واضح حکم کے باوجود اس کو منظر عام پر لانے سے گریزاں ہیں ، اس رپورٹ کومنظر عام پر لانے سے حکومت پنجاب کے گریز اور اس کو مزید الجھانے اورمعاملے کوطول دینے کیلیے اس کے خلاف اپیل سے ظاہرہوتاہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اور اس رپورٹ میں یقینا حکومت کے کچھ کمزور پہلوئوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، رپورٹ میں کیاہے اور کس کس کو اس سانحہ کاذمہ دار قرار دیاگیا ہے یہ بات تو واضح ہے کہ جلد یابدیر یہ رپورٹ منظر عام پر آہی جائے گی اس لیے اس کا مزید چھپانے کی کوششیں لایعنی ثابت ہوسکتی ہیں اس لیے دانشمندی کاتقاضہ یہی ہے کہ حکومت اس معاملے کو مزید الجھانے کے بجائے اسے عام کرکے متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کاآغاز کردے اس طرح اگرچہ ہوسکتاہے کہ حکومت کو اپنے چند وفاداروں اورجاں نثاروں کی قربانی دینا پڑے لیکن عوام کی نظروں میں ان کی وقعت میں اضافہ ہوجائے گا۔‘ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کو انصاف ملنا چاہئے مگر کسی بے قصور پر اتہام نہیں لگنا چاہئے۔