پاناما پر دیا گیا غلط فیصلہ واپس لیا جائے، نواز شریف کے عدلیہ کے حوالے سے 12سوالات
شیئر کریں
لاہور (بیورو رپورٹ) سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ اپنے خلاف فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا، مگر ایسے فیصلے پر عمل درآمد کے باوجود تسلیم نہیں کیا جاسکتا،لہذاغلط بنیادوں پر غلط اندازمیں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے، جبکہ وزرائے اعظم سے یہ سلوک جاری رہا تو کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔ لاہور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور وکلا کا رشتہ وطن عزیز میں جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے، وکلا تحریک سے عوام میں صرف قانون کی حکمرانی کا اعتماد پیدا ہوا، وکلا ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے ہیں، وکلا پر آج بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، جبکہ میں بھی جمہوریت اور عوام کا مقدمہ بڑی عدالت میں لڑرہا ہوں۔نوازشریف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا نے جاندار تحریک چلائی ،سختیاں برداشت کیں اور یہ جدوجہد آئین کی بالا دستی اور انصاف کی حکمرانی کیلیے تھی۔ سب جانتے ہیں کہ میں پاناما پیپرز کے سیکڑوں ناموں میں شامل نہیں اور جب سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائرکی گئیں تو عدالت نے انہیں بے معنی قرار دیا، ٹی او آرز کو مسئلہ بنایا گیا تو ہم نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی بنائی، انہوں نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی میں بھی سرد مہری دکھائی، کیونکہ انہیں اس معاملے کو گلیوں اور سڑکوں پر لانا تھا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک فیصلہ 20 اپریل اور دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا، ان فیصلوں کے بارے میں وکلا مجھ سے بہتر جانتے ہیں، 70 برسوں میں کوئی ایک وزیراعظم بھی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا اور کہا جاتا ہے میری کسی سے نہیں بنتی۔ تو کیا مجھ سے پہلے سب کی بنتی تھی، کیا 18 کے 18 وزیر اعظم نواز شریف تھے، وزرائے اعظم سے یہ سلوک جاری رہا تو کوئی حادثہ ہوسکتا ہے اس لیے اس مرض کا علاج اب ضروری ہے اب ملک کو کسی نئے امتحان میں نہ ڈالا جائے۔ نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے 12سوالات اٹھائے ۔ نواز شریف نے کہا کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ واٹس ایپ کالز پر پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟،کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ؟کیا اس سے پہلے قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ؟،کیا آ ج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے ؟کسی درخواست میں دبئی کی کمپنی اور تنخواہ لینے کی بنیاد پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ؟کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قانون کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے ؟کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں 4فیصلے سامنے آئے ہوں ؟،کیا کبھی وہ جج صاحبان بھی پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں ؟،کیا ان جج صاحبان کو بھی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی ،نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے ؟کیا پوری عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ کے لیے بھی سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو ؟کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتا ہے ؟کیا نیب کو اپنے قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے ؟آپ وکلاء سے بہتر کون جانتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت اندراج مقدمہ کے لئے کس عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ 22اے ، بی کے تحت یہ اختیار ایڈیشنل جج کی عدالت کو ہے لیکن یہاں براہ راست عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ۔ نیب کے قانون کے مزین کردہ اصولوںکے مطابق ریفرنس فائل ہونے کے لئے پہلے شکایت کنندہ کی تصدیق ، پھر انکوائری ، انوسٹی گیشن کا پورا ہونا لازمی ہے اور اس کے لئے کسی بھی شہری کو ہر مرحلے پر عدالت عدالیہ سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد (بیورو رپورٹ)سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز نے پاناما کیس کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیا گیا ٗ عدالتی فیصلے میں شریف خاندان سمیت اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا۔میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار پہلے ہی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق حسن، حسین اور مریم نوازسمیت کیپٹن (ر) صفدر نے بھی پاناما کیس کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواستیں دائر کردی ہیںحسین، حسن، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے 2 نظر ثانی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں سے ایک درخواست سپریم کورٹ کے 5 رکنی اور دوسری 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔نظر ثانی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پاناما کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے مالی اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقات انصاف کے تقاضوں کے منافی ٗنامکمل اور اس قابل نہیں تھی جس پر ریفرنس دائر ہو سکے۔موقف اختیار کیاگیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کو زیرِغور نہیں لایا گیا جبکہ رپورٹ پر عدالتی فائنڈنگ سے ہمارے حقوق متاثر ہوں گے۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت پاناما عملدرآمد بینچ کے تین ججز نے کی لہذا پانچ ججز کو رپورٹ پر فیصلہ کا اختیار نہیں تھا۔ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے میں سقم ہیں، لہذا اس فیصلے کے خلاف نظرثانی منظور کی جائے اور اسے کالعدم قرار دے کر درخواستیں خارج کی جائیں۔