پاکستان کا فوجی صنعتی بیس بھارت سے کئی گنا بہترہے بھا رتی جنرل کا اعتراف
شیئر کریں
پا کستا نی آرڈیننس فیکٹریاں اپنی افواج کیلئے زیادہ ہتھیار بنا رہی ہیں جبکہ ہمیں بیرونی ممالک کے دفاعی سازوسامان پر انحصار کرنا پڑتا ہے بھارتی آرڈیننس فیکٹریو ں کی ناکامیوں کی بڑی وجہ ان میں احتساب کا عمل نہ ہونا ہے ہم مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں وائس چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل سراتھ چند
بھارتی فوج کے وائس چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل سراتھ چند نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا فوجی صنعتی بیس بھارت سے کئی گنا بہترہے اور یہ صنعتی اڈے بھارت کے مقابلے میں زیادہ دفاعی سامان برآمد کرتے ہیں اور اس کی آرڈیننس فیکٹریاں اپنی افواج کیلئے زیادہ ہتھیار بنا رہی ہیں جبکہ ہمیں بیرونی ممالک کے دفاعی سازوسامان پر انحصار کرنا پڑتا ہے بھارتی آرڈیننس فیکٹریو ں کی ناکامیوں کی بڑی وجہ ان میں احتساب کا عمل نہ ہونا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بھارتی فوج کی جانب سے منعقدہ ایمی کون 2017کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا بھارتی جنرل کا کہنا تھا کہ ہماری آرڈیننس فیکٹریاں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پیداواری رفتار کو برقرار رکھیں اس لئے میں برملا یہ کہوں گا کہ ہم مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں اور یہ ہماری دفاعی ضروریات کا یہ ناکام ترین طریقہ ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان شاید بہتر صنعتی بنیاد ہے جہاں تک ہمارے ملک کی دفاعی پیداوار کا تعلق ہے تو حقیقت میں ہم اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے انہوں نے کہا کہ بھارت کی آرڈیننس فیکٹری کا جہاں تک عمل دخل ہے اس میں بہتری نہ ہونے کی وجہ ان میں احتسابی عمل کی کمی ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تحقیق اور تیاری کا عمل انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے ہماری صنعت کو ٹیکنالوجی کے ذریعے منتقل یا جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور ہم کچھ واقعات میں دفاعی آلات تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں یہ بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ان آرڈیننس فیکٹریوں میں تبدیلی ناگزیر ہے کیونکہ جو طریقہ کار ہماری آرڈیننس فیکٹریوں نے اپنا رکھا ہے وہ دفاعی سازوسامان کی تیاری میں اب تک ناکام ثابت ہوا ہے جنرل سرت کا کہنا تھا کہ ملکی ساختہ دفاعی صلاحیت انتہائی مشکل سے دو چار ہے انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ جنگ کے موقع پر ہمیں بیرونی معاونت یا دفاعی آلات کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب ایسے حالات ہوں تو دوست بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جنرل چند کا کہنا تھا کہ ہمیں انڈیا میں تیاری پروگرام تشکیل دینا ہوگا دفاعی تجارتی پالیسی دو ہزار سولہ ایک سٹرٹیجک شراکت دار کا ماڈل ہے اورا س سلسلے میں حکومت کو فوری طورپر اقدامات اٹھانا ہونگے