میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن نظرثانی کیس، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کریں گے، چیف جسٹس

الیکشن نظرثانی کیس، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کریں گے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۶ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئینی طور پر کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت چھ ماہ اور نگراں حکومت چار سال رہے، الیکشن کمیشن ہوا میں تیر نہ چلائے بلکہ ہدف پر فائر کرے تاکہ پتا تو چلے کہ کہنا کیا چاہتا ہے۔پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، دلائل جامع اور مختصر ہوں، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کافی وقت ضائع ہوا، ہمیں بتائیے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز عدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں؟ اب تک کے نقاط نوٹ کر چکے ہیں آپ آگے بڑھیں۔ وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔جسٹس منیب نے کہا کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز عملی طور پر کالعدم ہو جائیں گئے۔ وکیل نے کہا کہ بعض اوقات ملاقات میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بھی محدود ہے، توہین عدالت کے کیس میں لارجر بینچ نے قرار دیا کہ کہہ سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں کیا جاسکتا، نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گیے، کم ازکم ٹارگٹ کر کے فائر کریں پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے بھی زیادہ بڑا کردیا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں