بھارتی ہیلتھ ورکرزکی حالتِ زار
شیئر کریں
(مہمان کالم)
مجیب مشال
’’طویل شفٹیں لگ رہی ہیں‘ وارڈز بھرے ہوئے ہیں‘ ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہے کہ میڈیکل سٹوڈنٹس اور انٹرنیز بھی کا م کر رہے ہیں‘ سینکڑوں ورکرز مو ت کے منہ میں جا چکے ہیں‘‘۔ کووڈ جیسی مہلک وبا کے سامنے بھارتی ڈاکٹرز اور دیگر حکام‘ سٹاف اور وسائل کی قلت کا گلہ کر رہے ہیں۔ ہیلتھ ورکزر ملک گیر سطح پر تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور اس بحران میں حکومتی بد انتظامی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ چہار سو شدید بے بسی کی کیفیت طاری ہے۔ ہر روز یہی فیصلے ہو رہے ہیں کہ کیا مریض بچ جائے گا یا مر جائے گا۔ تمام بیڈز بھرے ہوئے ہیں اور ڈاکٹرز کو فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ باہر کھڑے ہجوم میں سے کسے علاج کے لیے اندر آنے کی اجازت دیں۔ آکسیجن ختم ہو رہی ہے‘ اس لیے انہیں سوچنا پڑتا ہے کہ کس کی زندگی بچائیں اور کسے چھوڑ دیں۔ جذباتی مناظر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی دہلی کے میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر مراد لکمار ڈگا کہتے ہیں ’’آپ کی ساری زندگی اس تیاری میں گزر جاتی ہے کہ آپ مریض کو بچانے کے لیے ہر آپشن کو استعمال کریں گے مگر آپ تصور کریں جب آپ کو مریضوں میں ترجیحی فہرست بنانا پڑے؟ ایک ڈاکٹر کے طور پر آپ کو اس طرح کے دلخراش فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور میری زندگی کے آخری تین ہفتوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے‘‘۔
نئی دہلی میں حکومت نے بتایا کہ منگل کو بھارت میں ریکارڈ 4529 اموات ہوئی ہیں اور اب تک یہ کووڈ کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی ملک کی ایک دن کی سب سے زیادہ اموات ہیں؛ تاہم لاک ڈائون میں سختی نے کووڈ کے وائرس کے پھیلائو کو کم کر دیا ہے۔ اس سے قبل مہلک ترین دن جنوری میں امریکا میں آیا تھا جب ایک دن میں 4 ہزار 468 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ منگل کو بھارت میں 2 لاکھ 67 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ متاثرہ افراد کی تعداد 25 ملین کو عبور کر گئی ہے جبکہ اموات بھی تین لاکھ کو عبور کر چکی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دیہات میں ٹیسٹنگ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے حقیقی اعداد و شمار نہیں مل رہے۔ ہیلتھ ورکرز نے اس بحران میں اپنی جانوں کی قربانی کی شکل میں پورا حصہ ڈالا ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق‘ اب تک ایک ہزار سے زائد ڈاکٹر کووڈ کی وجہ سے انتقال کر چکے ہیں، ان میں سے ایک چوتھائی کی موت اپریل کے بعد ہوئی ہے اور چالیس فیصد سے زائد ڈاکٹرز کووڈ سے متاثر ہیں۔
بھارتی ہیلتھ ورکرز انتہائی نامساعد حالا ت میں کام کر رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق‘ بھارت میں سرکاری اور نجی سطح پر میڈیکل اخراجات جی ڈی پی کا محض 3.5 فیصد ہیں اور یہ شرح باقی دنیا کے مقابلے میں نصف ہے۔ وڈیوز دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ انہیں کس قدر خوف اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں کے لواحقین ہسپتالوں میں خون میں لتھڑے ا سٹاف پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ لوگ انہیں ڈرا دھمکا رہے ہیں، برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر جے لال کہتے ہیں ’’جو بھی آ رہا ہے‘ سخت مشتعل ہے۔ چھوٹی سی بات بڑے جھگڑے میں بدل جاتی ہے۔ لوگ صورتحال کو بالکل نہیں سمجھ رہے۔ بدقسمتی سے ہیلتھ کیئر ورکرز سے کہا گیا ہے کہ وہ خود ہی یہ صورتحال سنبھالیں‘ کوئی بھی ان کی بے بسی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بعض اوقات ان کے اپنے ساتھی ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ انہیں بچا سکنے کے باوجود بچا نہیں پاتے‘‘۔ بٹرا ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر آر کے ہمتھانی ان 12 ڈاکٹروں میں سے ایک تھے جو مئی کے شروع میں 80 منٹ کے لیے آکسیجن کی کمی کا شکار ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ہمتھانی اور ان کی بیوی کووڈ کا شکار ہونے سے پہلے چودہ مہینے تک کووڈ کے مریضوں کا علاج کرتے رہے تھے۔ جب آکسیجن کی کمی کا مسئلہ بنا تو ڈاکٹر چرن لال گپتا‘ جو ڈاکٹر ہمتھانی کے قریبی دوست تھے‘ ہسپتال میں اوپر نیچے بھاگ رہے تھے، حکومت اور میڈیا‘ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے تھے کہ کسی طرح آکسیجن فراہم کی جائے۔ جب ڈاکٹر ہمتھانی کی میت ہسپتال سے باہر لائی گئی تو ہسپتال کے ڈاکٹرز اوران کے کولیگز انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مین گیٹ پر جمع تھے۔ پھر وہ اپنی اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے۔ ڈاکٹرگپتا کہتے ہیں کہ ’’آکسیجن تو آ گئی مگر وہ میرے دوست سمیت ان بارہ لوگوں کی جان نہ بچا سکی۔ آج کل ہم خود کو انتہائی تہی دامن اور بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ میں کئی دنوں سے سو نہیں سکا‘‘۔
بھارت میں پہلے ہی ہیلتھ ا سٹاف کی کمی کا سامنا تھا۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آ ف پبلک ہیلتھ کے مطابق بھارت میں ہر 10 ہزار افراد کے لیے 17 ہیلتھ ورکرز یعنی ڈاکٹرز، نرسز اور مڈ وائیوز ہیں۔ یہ ڈبلیو ایچ او کے معیار سے کہیں کم ہے جو کہتا ہے کہ ہر 10 ہزار افراد کے لیے 44.5 ہیلتھ ورکرز لازمی ہونے چاہئیں۔ وسائل نامنصفانہ طریقے سے صرف شہری علاقوںمیں ہی تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ چالیس فیصد ہیلتھ ورکرز دیہی علاقوں میں کام کرتے ہیں جہاں بھارت کی 70 فیصد ا?بادی رہتی ہے۔ بہار میں‘ جو بھارت کی غریب ترین ریاست ہے‘ ہر دس ہزار لوگوں کے لیے صرف 24 بیڈز دستیاب ہیں جو عالمی سطح پر دستیاب سہولت کا دسواں حصہ ہے۔ بہار کے ایک ہسپتال کی نرس لکشمی کماری کہتی ہیں ’’جب میں اپنی آنکھیں بندکرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کسی کو میری ضرورت ہے۔ جب میں سونے کی کوشش کرتی ہوں تو میں دیکھتی ہوں کہ میرے چاروں طرف لوگ جمع ہیں اور مجھ سے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہ تصور مجھے سونے نہیں دیتا اور میں اپنا کام جاری رکھتی ہوں‘‘۔ اس کا 80 بیڈ کا ہسپتال کووڈ کے مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ پٹنہ کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹر لوکیش تیواڑی کے مطابق ان کے آدھے سے زائد ڈاکٹرز یا ہیلتھ ورکرز کے خاندان کے افراد بھی کووڈ کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس کے ہسپتال میں چار سو بیڈز اور 80 آئی سی یوز ہیں جو ہر وقت مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہسپتال کے ڈاکٹرز اور نرسیں خود حوصلہ ہار گئے ہیں اس لیے ہمیں ان کی اور ان کی فیملی کی بھی کونسلنگ کرنا پڑتی ہے۔ ڈاکٹر تیواڑی کہتے ہیں کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ اچھے بھلے لوگ چلتے پھرتے آتے ہیں‘ اچانک گرتے ہیں اور ایک گھنٹے کے اندر مر جاتے ہیں تو آپ کی ذہنی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
کووڈ کی دوسری لہر کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں ہیلتھ ورکرزکی قلت دور کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے فائنل ایئر کے میڈیکل ا سٹوڈنٹس اور انٹرنیز کے لیے کووڈ ڈیوٹی سے متعلق ایک مالی پیکیج تیار کرنے کا حکم دیا ہے، نیز انہیں سرکاری ہسپتالوں میں بھرتی کھلنے پر ترجیح دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ کولکتہ کے ایک ہسپتال میں ایک شخص سوہم چیٹر جی نے ڈاکٹرز سے پوچھا کہ کیا وہ اس کی مرتی ہوئی ماں سے وڈیو کال پر بات کرا سکتے ہیں۔ 48 سالہ سنگ مترا چیٹر جی ایک سائیکالوجسٹ اور میوزک ٹیچر تھیں۔ ان کے بیٹے سوہم نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ جب ڈاکٹرز موبائل فون پکڑ کر کھڑے تھے اور ان کے اردگرد نرسیں جمع تھیں تو میں نے اپنی ماں کو 70ء کی دہائی کا ایک مقبول گیت سنایا۔ اس وقت میں بہت پریشان تھا۔ دونوں ماں بیٹا فیملی فنکشنز میں بھی مل کر گلوکاری کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔