میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ۔۔۔عوام کو اعتماد میں لیاجائے

بجلی کی لوڈ شیڈنگ ۔۔۔عوام کو اعتماد میں لیاجائے

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۶ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزارت پانی و بجلی نے گزشتہ روزخورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے اجلاس میں سرکولر ڈیٹ کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں 480 ارب روپے کے زیر گردش قرضے یا سرکولر قرض ادا کیے گئے تھے لیکن یہ دوبارہ 401 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔وزارت پانی و بجلی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت گردشی قرض کی مالیت 4 سو ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔حکام کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار کی مد میں 237 ارب روپے ادا کرنا ہیں جبکہ گیس کی مد میں 11 ارب روپے اور تیل کی مد میں 99 ارب روپے ادا کرنا ہیں۔وزارت کے حکام نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت بجلی کی پیداواری لاگت 8 روپے 52 پیسے فی یونٹ ہے جو صارفین کو 11 روپے 97 پیسے فی یونٹ کے حساب سے دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائیڈرل پاور سپلائی سے 4 روپے 11 پیسے، آئی پی پیز ہائیڈل سے 8 روپے 80 پیسے اور کوئلے سے 11 روپے 65 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈیزل سے 16 روپے 19 پیسے، فرنس آئل سے 11 روپے 76 پیسے اور گیس سے 8 روپے 86 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔وزارت پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ ایٹمی بجلی گھر سے 5 روپے 36 پیسے، ہوا سے 17 روپے 34 پیسے، سولر سے 16 روپے 92 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔حکام کا کہنا تھا کہ نیپرا کی جانب سے 15 اعشاریہ تین فیصد نقصانات کی اجازت ہے اصل نقصانات 17 اعشاریہ 9 فیصد ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترسیلی نقصانات کے باعث 4 سال میں 135 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد نقصان ہو چکا ہے۔حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ حکومت نے 480 ارب روپے کا سرکولر ڈیٹ یعنی گردشی قرضہ ادا کیا دوبارہ 401 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ گردشی قرضوں میں 135 ارب روپے کے ترسیلی نقصانات، 182 ارب روپے بلوں کی مد میں جبکہ 62 اعشاریہ 45 سبسڈی کی مد میں بقایا ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ گردشی قرضوں میں کے الیکٹرک کے 22 ارب روپے کے واجبات بھی شامل ہیں۔ رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان کے اس سوال پر کہ کے الیکٹرک معاہدے کے باوجود بجلی پیدا کیوں نہیں کررہا، وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا شنگھائی الیکٹرک سے معاہدہ تعطل کا شکار ہے۔
جہاں تک پاکستان میں بجلی پیدا کرنے اورتقسیم کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی کا تعلق ہے تو ملک میں شاید ہی کوئی ایسا فرد مل سکے جو ان کمپنیوں کی کارکردگی کو مناسب قرار دے سکے، جبکہ عوام کو عذاب میں مبتلا کرنے کے حوالے سے کے الیکٹرک ان سب سے آگے نظر آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس کمپنی کے مالکان اور ارباب اختیار کو صرف بھاری منافع، تنخواہوں اور مراعات کے سوا کسی کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ کے الیکٹرک نہ توکراچی کے شہریوں کو بجلی دے رہا ہے ،نہ واجبات ادا کررہا ہے جبکہ اس کے برعکس اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کے الیکٹرک کے ارباب اختیار اپنے تمام اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ کوڑیوں کے مول لی گئی کے الیکٹرک کے ذریعے کراچی کے شہریوں سے لوٹے گئے اربوں روپے ملک سے باہرمنتقل کر کے وہ بیرون ملک بیٹھ کر عیاشیاں کرسکیں۔ حکام کا کہناہے کہ کے الیکٹرک کے ساتھ 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا معاہدہ بھی ختم ہوچکا ہے تاہم معاہدہ ختم ہونے کے باوجوداسے بجلی کی سپلائی دی جارہی ہے۔
یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ موجودہ حکومت کے الیکٹرک کے ارباب اختیار کو کس بنیاد پر اپنے تمام اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے کی کھلی چھوٹ دیے ہوئے اور اس سے تمام واجبات اور کے ای ایس سی کی مشینری اور عمارتوں کو استعمال کرکے ان میں سے بعض کو ناقابل استعمال بنادینے اور بعض کو مبینہ طور پر مختلف بینکوں میں رہن رکھ دینے کے باوجود ملک سے چلے جانے کی کلین چٹ دے رہے ہیں، دوسری جانب یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ حکومت کی جانب سے پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی گرڈ میں شامل کرنے کے دعوے کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، جبکہ ارباب اختیار کا یہ کہنا غلط ہے کہ طلب بڑھ گئی ہے یہ درست ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت بجلی کی طلب میںمعمولی سااضافہ ہواہے لیکن جتنی بجلی گرڈ میں شامل کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں، طلب میں ہونے والا اضافہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے،اس لیے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اگرواقعی اضافی بجلی آئی ہے تو صارفین تک کیوں نہیں پہنچ رہی۔ طلب میں اضافے کا جواز تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ لوگ خود بھی سولر انرجی کی طرف جانا چاہتے ہیں،اب یہاں سوال یہ ہے کہ جو لوگ سولر انرجی کی جانب جانا چاہتے ہیں،اور اپنے طورپر سولر انرجی سے استفادہ کرنا اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی دسترس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے دباﺅ سے آزاد ہوکر سولر انرجی سے استفادہ کرسکیں۔ حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ کیا حکومت عوام کو اس معاملے پر سبسڈی دینے کو تیارہے اوراگر ایسا نہیں تو اس کاسبب کیاہے ،جب حکومت بجلی پیدا کرنے اور اس کی تقسیم کی کمرشل کمپنیوں کو سبسڈی دے سکتی ہے تو عام آدمی کو اس سے محروم رکھنے کی وجہ بتانا بھی یقیناً حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے اور عوام اس کاجواب چاہتے ہیں کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو ماہ میں 500 ارب کے گردشی قرضے ختم کرنے کا عزم ظاہر کیاتھا اور انہوں نے بڑی حد تک اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچابھی دیا لیکن اس کے فوری بعد ہی اتنی بلکہ اس سے کچھ زیادہ رقم کے گردشی قرضے کیونکر وجود میں آگئے اور اگر یہ کسی سائیکل کا حصہ ہے اور اس طرح کے قرض مکمل طورپر ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو عوام کو اس طرح کے جھوٹے وعدوں سے بہلانے کا کیافائدہ ۔وفاقی وزیر خزانہ معیشت کی بحالی کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیتے ہیں لیکن حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود اب تک عوام کو معیشت میں بہتری کے ثمرات نظر نہیں آسکے ہیں،جہاں تک وزیر خزانہ کے اس استدلال کا تعلق ہے کہ بجلی کے بحران کی وجہ بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی ہے،اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتاکیونکہ یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ حکومت نے گزشتہ4سال کے دوران بجلی کی چوری کی روک تھام کے لیے کیا اقدام کیے اور اگر حکومت یہ چوری روکنے میں ناکام رہی ہے اور اس کا الزام پاکستان کے غریب عوام پر لگا کر ان کی بجلی بند کرکے انہیں اس شدید گرمی میں جھلسنے کے لیے چھوڑ دینا کسی بھی طرح قرین از انصاف قرار نہیں دیاجاسکتا، حکومت کے تمام تر دعووں کے باوجود ملک میں 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جا ری ہے جس سے نہ صرف یہ کہ جی ڈی پی میںکم وبیش2 فیصد کمی ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے ملکی انڈسٹری بھی بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے ایسی صورت میں کیا وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی کابینہ کے ارکان ملک میں بیروزگاری کے عفریت پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اس صورت حال کانوٹس لیناچاہیے اور بجلی چوری اور شدید چوری جیسے عذر لنگ تراش کر اپنی ناکامیوں کو اس کے پیچھے چھپانے کے بجائے جرا¿ت سے کام لیتے ہوئے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے اور عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ حکومت لوگوں کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کے لیے کیا کررہی ہے اور حکومت کی ان کوششوں کے نتائج کب تک سامنے آنے کی توقع ہے ۔کیونکہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا انہیں اندھیرے میں رکھنے سے زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں