اسلام میں یتیموں کے حقوق
جرات ڈیسک
جمعه, ۲۶ اپریل ۲۰۲۴
شیئر کریں
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے،اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اس میں معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا۔ہر ایک کے لیے ایسے اسباب وذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے دن گزار سکے۔ یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑلینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ یتیم‘اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے”ترجمہ:اور یتیموں کو اُن کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو، اور اُن(یتیموں) کا مال اپنے مال کے ساتھ ملاکر مت کھاؤ! بے شک یہ بڑا گناہ ہے“(سورۃ النساء:02)یتیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن پر ظلم و زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنیوالے کے لیے وعیدبیان کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ (سورۃ الدھر) افسوس کہ لوگ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں، انہیں اِس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ارشاد ربانی ہے:جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے(سورۃ النساء)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے اوریہ آپ سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اوراگرتم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تووہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے، اوراگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ غالب اورحکمت والا ہے(سورۃالبقرہ 220)جس کے زیر سایہ کوئی یتیم ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس یتیم کی اچھی پرورش کرے، اَحادیث میں یتیم کی پرورش اوراس سے حسن سلوک کے بے شمارفضائل بیان کئے گئے ہیں،رسول اللہ ا ﷺنے ارشاد فرمایا ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(صحیح بخاری)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، امامُ الانبیاءﷺنے ارشاد فرمایا: ”جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل فرمائے گا۔(جامع ترمذی)رسول اکرم ﷺنے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت سے نوازا ہے کہ وہ جنت میں آپﷺ کے ساتھ ہو گا۔حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا میں اوریتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت اوردرمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کرکے اشارہ کیا(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اکرمﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ ”یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین کو کھانا کھلایا کرو“ (مسند احمد: 7577)حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺسے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہﷺنے فرمایا: ”اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواوراسے کھلایا کرو“ (السنن الکبریٰ للبیہقی:7095)حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن میری حضور اکرم ﷺسے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟“حضورﷺ نے فرمایا ”وہ تو شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔“ میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضورﷺنے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیااور فرمایا کہ ”کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ ؓ تمہاری ماں“(شعب الایمان للبیہقی: 10533)حضرت اُم سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے، اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت والی اُنگلی سے اشارہ فرمایا“ (مسند الحمیدی:861)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا ”مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہواور سب سے برُا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا“ (الزہد والرقائق لابن المبارک:654)آج ہمارے اس معاشرے میں یتیموں کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا تاہے،اور ان کو ایک کم تر تصور کیا جا تا ہے حالانکہ اسلام نے یتیموں کے بے پناہ حقوق متعین کئے ہیں،اور آج کل یتیموں کے ساتھ ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار گرم ہے۔ دنیا کو حاصل کرنے کی خواہش نے انسان کو اندھا کر دیا ہے حتیٰ کہ وہ خونی رشتوں کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ یتیم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں رہتا ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیا جاتا ہے جو کہ انتہائی نامناسب کام ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب گھروں میں باعزت وہ گھر ہے جس میں یتیم کی عزت ہو(ترمذی 456جلد 2) عید کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو پریشان حال دیکھا تو اسے اپنے گھر لے آئے اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں محمد ﷺباپ بن جاؤں اور حضرت عائشہ ؓتیری ماں بن جائے۔ ان تمام قر آن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ یتیم کیسے حقوق رکھتا ہے؟ جہاں ہم معاشرے میں دیگر امور کی طرف توجہ کرتے ہیں،اپنی روزمرہ زندگی گزارنے میں اپنا وقت گزارتے ہیں وہاں معاشرے یتیم کی جانب دیکھنا بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ہماری امداد،محبت،پیارکے منتظر ہو تے ہیں،خواہ وہ اپنے رشتہ دار ہوں یا اہل محلہ یا کہیں بھی رہتے ہوں،ان کا مداوا کرنا صاحب حیثیت کی ذمہ داری ہے،بہر حال ہمیں ہر حال میں ان امور کی جانب توجہ کرتے ہو ئے یتیم کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔