میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیف جسٹس سے انتخابات میں دھاندلیوں کی شکایت

چیف جسٹس سے انتخابات میں دھاندلیوں کی شکایت

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۶ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما، سابق وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے چیف جسٹس کے نام خط میں انھیں ضمنی انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اس حوالے سے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے مناسب کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔خط کے متن کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد نے چیف جسٹس کو بتایا ہے کہ ضمنی الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوئی، ضمنی الیکشن میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دفن کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن باندی بنی ہوئی تھی، نہ پاکستان میں کوئی عزت رہی نہ بیرون ملک،لہٰذا چیف جسٹس اس معاملے کا نوٹس لیں۔ جہاں تک ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ڈاکٹر یاسمین راشد کی درخواست کا تعلق ہے تو اس درخواست میں حیران کُن کچھ نہیں ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ضمنی انتخابات کے موقع پر پولیس اور طاقت کے بے محابا ناجائز استعمال اور الیکشن کمیشن کے عملے کی جانب سے الیکشن سے پہلے ہی فارم 45 پر دستخط کرانے کی خبریں ملک اور بیرون ملک کے تمام اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں اس لئے اگر تحریک انصاف کے رہنما یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے دھاندلی کے الزامات کے درمیان قومی و صوبائی اسمبلیوں کی زیادہ تر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے توکچھ زیادہ غلط بھی نہیں،ہوسکتاہے کہ یہ دھاندلی 8 فروری کے عام انتخابات جیسی نہ ہو لیکن ضمنی انتخابات کو شفاف بھی نہیں کہا جاسکتا۔ برسرِاقتدار ہونے کی وجہ سے حکمران جماعت کو صوبائی انتظامی امور کے مکمل اختیارات حاصل تھے جوکہ واضح طور پر ان کے حق میں مثبت ثابت ہوا۔ اگرچہ دو قومی اور 10 صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیت کر مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور صوبے میں پوزیشن مستحکم ہوئی ہے لیکن یہ پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کا پیمانہ نہیں پارٹی کی قیادت جس کا دعویٰ کررہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے عوامی تشویش میں اضافہ ہورہا ہے اورموجودہ نظام پر اس کی قانونی حیثیت کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور خود مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما انتخابی دھاندلیوں کے خلاف آواز یں اٹھارہے ہیں،ان ضمنی انتخابات کے دوران خود مسلم لیگ (ن) کے اندر تنازعات اس قدر زیادہ تھے کہ لگ رہا تھا کہ پارٹی کے اندر شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ ایک طرف ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، دوسری طرف رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف اور عابد رضا کوٹلہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت کے خلاف مہم جوئی شروع کر دیتے تھے۔ ٹی وی پر ن لیگ کے اپنے ہی رہنما، ن لیگ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ایک ایسا ماحول تھا کہ ن لیگ کے خلاف ن لیگ ہی مہم چلا رہی تھی۔رانا ثنا اللہ پنجاب کے صدر ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، وہ ٹاک شوز میں اپنی ہی جماعت پر تنقید کر رہے تھے، مرکزی حکومت پر حملہ آور تھے۔ جاوید لطیف نے تو ریڈ لائن ہی کراس کر دی۔ انھوں نے تو اپنی جماعت کی جیت کو متنازع بنا دیا۔ اپنی ایک سیٹ کے غصہ میں انھوں نے پورے عام انتخابات کے نتائج کو متنازع بنا دیا۔انھوں نے میاں نواز شریف کی بھی جیت کو متنازع قراردیا۔انھوں نے تو اپنی جماعت پر ایسا حملہ کیاکہ مخالفین کو نہ صرف مکمل بیانیہ مل گیابلکہ ان کے بیانیہ کو دلیل اور طاقت بھی ملی۔ آپ کسی ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھ جائیں جب تحریک انصاف یا حکومت مخالف رہنماؤں کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو وہ کہتے ہیں کہ آپ جاوید لطیف کی بات سن لیں۔ دیکھیں وہ بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ دیکھیں انھوں نے بھی نواز شریف کی جیت کو متنازع قرار دیا ہے۔رانا ثنا اللہ نے جاوید لطیف کے بارے میں کہا ہے کہ انھیں اپنی ہار اور رانا تنویر کی جیت ہضم نہیں ہو رہی۔ گجرات کے مسلم لیگ (ن) کے صدر عابد رضا کوٹلہ نے نہ صرف عام انتخابات کے انتخابی نتائج کو متنازع قرار دیا۔ بلکہ یہاں تک اعتراف کرلیا کہ ہم سب ہارے ہوئے تھے، ہمیں جتوا یا گیا۔ ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کو عابد رضا کوٹلہ نے بھی بہت ایندھن فراہم کیا۔ اپنی ہار کے غم میں انھوں نے پوری جماعت کو ہی رگڑ دیا۔ بڑھتی ہوئی اندرونی دراڑیں مسلم لیگ (ن) کے لیے زیادہ پریشان کُن ہیں۔ جماعت کے کچھ سینئر رہنما اب کھل کر شہباز شریف کے ہائبرڈ طرزِ حکومت پر ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس اندیشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ اصل اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور بڑے بھائی نواز شریف جو تخت کے اصل وارث ہیں، انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ جماعت میں اندرونی تقسیم واضح ہوتی جارہی ہے۔ہوسکتاہے کہ یہ انتخابی دھاندلی اور اس دھاندلی پر خود پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا احتجاج شہباز شریف کی حکومت کے لیے فوری خطرہ نہ ہو لیکن ان اختلافات کا سنگین صورت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے، اگرچہ انتظامیہ اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوپارہا اور اب تو خود مسلم لیگی رہنما کہہ رہے کہ شریف فیملی نے اقتدار کو اپنی میراث اور انھیں اقتدار دلانے کیلئے رات دن ایک کردینے والے پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو اپنا کمی سمجھ لیا ہے جس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں عدم اطمینان صرف شریف خاندان میں اقتدار کی تقسیم نہیں بلکہ یہ ہائبرڈ طرزِ حکمرانی میں موروثی سیاست کے تضاد کی نشانی بھی ہے اور پارلیمنٹ کے باہر موجود قوتوں کی جانب طاقت کا زیادہ جھکاؤ ہے۔ حکمران اتحاد سے کسی طرح کی وابستہ نہ ہونے کے باوجود محسن نقوی کے کابینہ کے سب سے بااثر عہدے پر براجمان ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے اپنے مخصوص انداز میں یہ کہہ کر گویا سب کچھ کہہ دیا کہ شکر کریں کہ محسن نقوی نے وزیراعظم کاعہدہ نہیں مانگا۔ وزیرِداخلہ کے ساتھ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات بھی واضح ہیں۔ سابق وزیرداخلہ رانا ثنااللہ جوکہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں میں شامل ہیں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں طنزیہ انداز میں کہا کہ محسن نقوی چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔مسلم لیگ (ن) کے بہت سے دیگر وفادار اراکین بھی اسی طرح کا مؤقف رکھتے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ وزیرِ داخلہ وزیراعظم کے تحت یا ان کے ساتھ کام نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر تمام اتحادی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ سینیٹ میں محسن نقوی کا انتخاب، ان کے طاقتور سرپرستوں کے حوالے سے گردش کرنے والے مفروضوں کی تصدیق ہے۔ ایک معمولی ریٹنگ کے میڈیا ہاؤس کے مالک کا اتنے اعلیٰ سیاسی عہدے تک پہنچنا کافی حیرت انگیز ہے۔دلچسپ بات ہے کہ سابق نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب بیک وقت کئی عہدوں پر فائز ہیں۔ وزیر ِداخلہ کے طور پر کابینہ کے طاقتور ترین عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ بھی ہیں جبکہ پی سی بی کے چیئرمین شپ کے لیے متعدد امیدوار موجود تھے۔اس صورت حال میں رانا ثنااللہ کا یہ بیان کافی معنی خیز ہے۔تاہم اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں گہری مداخلت کے ساتھ ساتھ ایسی کامیابی کوئی نئی بات نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت کی ایک اور دلچسپ مثال فیصل واوڈا کا بطور سینیٹر منتخب ہونا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑنے والے فیصل واوڈا عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے اور ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط تعلقات مشہور ہیں۔ سینیٹ کے انتخاب میں تمام اتحادی جماعتوں نے ان کی حمایت کی۔ رانا ثنااللہ کے بقول،
 ’یہ سب ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اگرچہ شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ اقتدار سے چپکے رہنے کیلئے کسی کے ساتھ بھی ناطہ جوڑ سکتے ہیں لیکن اس صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے اندر ناراضی واضح ہورہی ہے۔ صرف رانا ثنااللہ نہیں بلکہ دیگر رہنما بھی اب بول پڑے ہیں۔ ان کے دور میں شاید جماعت میں اندرونی تصادم نہ ہو لیکن عوامی حکومت کے اختیارات کم کرنے کے حوالے سے ان کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے رہنما 8 فروری کو شکست سے دوچار ہوئے تھے جس سے ان کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔ اکثریت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں۔ 3بار وزارتِ اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے نواز شریف نے خود  گویا گوشہ نشین ہوچکے ہیں اور پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کے آثار دیکھ کر وہ نجی دورے پر چین پہنچ چکے ہیں لیکن پارٹی کی اس ٹوٹ پھوٹ کو روکنے والی اب کوئی شخصیت مسلم لیگ ن میں موجود نہیں ہے۔پارٹی کے کچھ رہنما نواز شریف کے پیچھے ہٹنے کے فیصلے کو خود کو حکومتی تنازعات سے دور رکھنے اور اپنے آپ کو وقت دینے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن شاید یہ تجربہ کار سیاستدان کے لیے اتنا آسان نہ ہو۔ 8 فروری کے عام انتخابات میں ایک نشست پر شکست اور لاہور کی نشست پر متنازع جیت کے بعد نواز شریف کی پوزیشن کافی حد تک کمزور ہوچکی ہے۔ یہ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ یہ ان کی پارٹی کی وہ جیت تھی جس کے لیے انہوں نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔درحقیقت مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی اور انتہائی کمزور مخلوط حکومت کی بقا صرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ممکن ہے۔ اس صورتحال میں یہ حیران کُن نہیں ہے کہ ہائبرڈ نظام میں طاقت کے ترازو کا جھکاؤ مقتدر قوتوں کی جانب ہے۔ قانونی حیثیت کے سوال نے پارلیمنٹ کی طاقت کو مزید کمزور کر دیا ہے جس نے غیر منتخب عناصر کو زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود مضبوط اپوزیشن کے دباؤ کے ساتھ حکومت کی حالت متزلزل ہے۔ ایسی صورتحال میں شہباز حکومت کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے نامزد کردہ وزیرِداخلہ کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔جسے اب ہائبرڈ پلس نظام کے طور پر بیان کیا جاتاہے، اس کے اپنے مسائل ہیں جو نظام کو متاثر کرتے رہیں گے۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی مداخلت پر مسلم لیگ (ن) کے چند رہنماؤں کا وقتاً فوقتاً ظاہر ہونے والے غصے سے یہ امکان نہیں کہ طاقت کا موجودہ نظام تبدیل ہوجائے گا۔اس سب سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت ہے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی شاید عوامی حکومت کے اختیارات پر زور دینے کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس سے محاذ آرائی کی سیاست میں مزید اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے خرابی کا شکار سیاسی نظام کو ٹھیک نہیں جاسکتا۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جس سے بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کچھ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں