میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بل گیٹس اورمداری کی پٹاری

بل گیٹس اورمداری کی پٹاری

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۶ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

آپ نے مداری تو دیکھا ہوگا۔ اُس کے پاس ایک پٹاری ہوتی ہے، جسے وہ موقع بہ موقع کھولتا ہے۔ اُس میں سے کچھ نہ کچھ نیا نکالتا ہے۔ اور آپ کو ہکا بکا چھوڑدیتا ہے۔
بل گیٹس کے پاس ایسی ہی ایک پٹاری ہے۔ جس سے وہ کچھ نہ کچھ نیا نکالتا رہتا ہے۔ اب گیارہ صفحات کاایک ”میمو“ہمارا منتظر ہے جسے بل گیٹس نے دوروز قبل تحریر کیا۔یہ ایک نئی دنیا کے ممکنہ خدوخال ہیں۔ پالیسی ساز اداروں کو ایک ٹھوس خطرے کے طور پر اسے سامنے رکھنا چاہئے۔بل گیٹس نے کورونا وائرس کے عرصہئ حاضر کو جدید وبا کا محض پہلا دور کہا ہے۔ وہ پہلے وبائی مرض کے طور پر پیش قیاسی کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کرتا ہے کہ ”دنیا کواگلے کئی برسوں تک اس درد کی توقع رکھنی چاہئے“۔بل گیٹس نے ایک اچھی اور ایک بُری خبر ایک ہی سانس میں سنائی ہے۔ وہ لکھتا ہے:اگلے دومہینوں میں دنیا نیم معمولات کی طرف لوٹ سکے گی، لیکن لوگ آئندہ کئی برسوں تک اس درد کو محسوس کرتے رہیں گے، جسے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ناممکن ہے“۔ اگر غور کیا جائے تو بل گیٹس کی اچھی خبر بھی کوئی زیادہ اچھی خبر نہیں ہے۔ کیونکہ اُس کے نزدیک دنیا اپنے معمولات کی طرف پہلے کی مانند تو اب کبھی نہیں لوٹ سکے گی، اسی لیے وہ اگلے دو مہینوں میں جس’نیم معمول‘یا”سیمی نارمل“ کی بات کررہا ہے، وہ مستقل خطرات سے پُر ایک دنیا ہوگی۔ مثلاً وہ اپنے میمو میں لکھتا ہے کہ
٭لوگ باہر جا سکتے ہیں، لیکن کثرت سے نہیں، اور بھیڑ والی جگہوں پر بالکل نہیں جاسکتے۔
٭ ریسٹورنٹ میں ایک میز چھوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ جبکہ ہوائی جہاز کے سفر میں درمیانی نشست ہمیشہ خالی رہے گی۔
٭اسکول تو دوبارہ کھلیں گے، لیکن کھیلوں اور تفریح کے لیے اسٹیڈیم نہیں کھلیں گے۔
بل گیٹس نے اپنے خیالات میں ایک اُصول کے طور پر اس بنیادی نکتے کو اجاگر کیا ہے کہ وبائی مرض کے لاحق ہونے کا ذرا سا خطرہ مول لے کر معاشی سرگرمیوں کی اجازت دینی پڑے گی۔ چند نکات میں بل گیٹس کے یہ تازہ خیالات کوئی سادہ سا معاملہ نہیں۔ درحقیقت بل گیٹس ان خطرناک اقدامات کا معمولی اور سادہ انداز میں ذکر کرکے ایک نئی دنیا کی تشکیل کا خواب بُن رہا ہے۔ وہ اس صورتِ حال کو ایک عالمی جنگ کی طرح قرار دے رہا ہے۔ مائیکروسوفٹ کے شریک بانی اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بل گیٹس ایک مشکل پیرایے میں یہ پیغام بار بار دے رہے ہیں کہ دنیا کی اپنے معمولات پر واپسی انتہائی خطرناک ہوگی۔ مثلاً وہ یہ مانتا ہے کہ اپریل میں جو اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ حیران کن حد تک مئی میں خالی ہو جائیں گے۔مگر وہ متنبہ کرتا ہے کہ اس سے اگر پابندیاں ڈھیلی پڑیں تو وبا بھڑک اُٹھے گی اور بہت سے مقامات پر یہ ایک بار پھر سر اُٹھائے گی۔ یعنی دنیا پر وائرس کا ایک منحوس گرداب مستقل گھمن گھیری ڈالے رہے گا۔
بل گیٹس یہاں سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا بھر میں اس وبا سے نمٹنے کے لیے سو سے زائد طریقہئ علاج پر کام کیے جارہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کام نہیں کریں گے۔ یہاں بل گیٹس کچھ علاجوں کی برائے وزن بیت تعریف بھی کردیتے ہیں۔ مگر کسی کوبھی وہ ایک موثر اور مکمل علاج نہیں سمجھتے۔ مثلا وہ اپنی گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے تیار ہونے والی ہائیڈرو آکسیلوکلورن کا بھی تذکرہ کرتا ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کورونا وائرس کے حوالے سے موثر قرار دیا تھا۔ مگر بل گیٹس کہتا ہے کہ اس دوا کے فوائد بھی معمولی ہی ہونگے۔ اب بل گیٹس باور کراتے ہیں کہ کسی معجزاتی دوائی کا امکان نہیں ہے، لہذا واحد اور طویل المیعاد حل ایک ویکسین ہی ہے۔بل گیٹس کہتا ہے کہ اس کی مکمل فراہمی نو ماہ سے دوسال تک میں ہی ممکن العمل ہوگی۔ پھر دنیا بھر کی حکومتوں کو فوری منظوری دینا ہوگی۔ تاکہ دنیا کے سات بلین افراد کو ویکسین فراہم کی جاسکے۔ بل گیٹس صاف لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ دنیا کے سات بلین افراد کو ایک یا دو خوراکیں ویکسین کی فراہم کرانا ہوگی جس کے بعد ہی دنیا اس وائرس سے پوری طرح محفوظ قرار دی جاسکے گی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بل گیٹس دراصل کیا کہہ رہا ہے۔ وہ دنیا کے مستقبل کو اپنی مٹھی میں سمیٹ رہا ہے۔ وہ ایک عالمی صحت پالیسی کو اپنی تحویل میں لے رہا ہے۔ اُس کے نزدیک کوئی حتمی طور پر کوروناو ائرس کے علاج کے لیے اپنی دوا منڈی میں نہیں لاسکتا، جب تک کہ وہ ویکسین کو اپنی مرضی اور اپنے نظام الاوقات میں پیش نہ کردیں۔ مائیکرو سوفٹ پر اجارہ داری کے بعد بل گیٹس کا مسخ ذہن عالمی صحت کی پالیسی پر مکمل اجارہ قائم کرنا چاہتا ہے۔
اسی ویکسین کے ایجنڈے کو بل گیٹس نے اکنامسٹ میں اپنے ایک تازہ مضمون کے اندر بھی اجاگر کیا ہے۔
بل گیٹس نے اپنے مضمون میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم نے جو زندگی گزاری ہے وہ مورخین آئندہ برسوں میں صرف ایک تہائی شمار کریں گے۔ اور کہانی کا اصل حصہ وہی ہوتا ہے جو آگے ہوتا ہے۔ یہاں پھر وہ اپنی ویکیسن کو آگے بڑھاتے ہیں۔زندگی معمول پر آجائے گی جب زیادہ تر آبادی کو قطرے پلادیے جائیں،اورا س میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ جس کی بڑی پیداوار 2021کے دوسرے نصف میں ہوسکے گی۔بل گیٹس نے لکھا ہے کہ تاریخ ساز کامیابی وہی ہوگی جس میں وبا کے خلاف دنیا حفاظتی ٹیکے لگانے میں کامیاب ہو جائے گی۔وہ ایک درد سے دنیا کو ڈرا رہا ہے جو پہلے سے ہی رنگ آمیز ہے۔
گیارہ صفحات کے خطرناک میمو میں بل گیٹس کے قلم سے کیا خوف صورت اور رنگ آمیز فقرہ سرزد ہوا۔ ”درد میں رنگ آمیزی ممکن نہیں“۔یہ بل گیٹس کی نہیں، رب کائنات کی دنیا ہے۔وہ اس کے اسرارورموز میں ”زندگی“کے معنی سے کیا آشنا ہوگا، اُسے تو اردو شاعری میں درد کے مقام کا بھی اندازا نہیں۔شاعر نے کہا:

زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے
درد دل کا لباس ہوتا ہے

دنیا کی بناؤٹ میں ہر خوف کی ایک عمر ہوتی ہے۔ جب خوف تسلط پر مُصر ہوتو پھر آدمی کے دل سے وہ جاتا رہتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ درد بھی کام نہ کرے گا تو دنیا کس چیز سے خوف زدہ ہوگی۔دیکھیے جگر مراد آبادی درد سے کس طرح دل کو بہلاتے ہیں۔

عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں

گیارہ صفحات کا میمو درد کی رنگ آمیزی ہی کرتا ہے۔ درد میں رنگ آمیزی کرنا ایک جنون ہی ہوسکتا ہے، ایک نرا پاگل پن۔ بل گیٹس کرتاہے اور باربار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ دنیا میں کوئی ذی روح کورونا وائرس سے بچے گا نہیں، مگر یہ کہنے کے لیے اس کے پاس اس کا اپنا فقرہ ہے۔

“No one who lives through Pandemic 1 will ever forget it”


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں