شامی شہریوں پر کیمیائی حملہ،271 شامی عہدیداروں کے اثاثے منجمد
شیئر کریں
سارن گیس حملے میں قصور وار قرار دیے گئے افراد کو امریکا نے بلیک لسٹ قراردے دیا یہ271 اہلکار شام کے سائنسی مطالعے اور تحقیقی مرکز کے ملازمین ہیں
امریکی حکومت نے اپریل کے اوائل میں ادلب کے علاقے خان شیخون میں ایک مبینہ کیمیائی حملے میں قصور وار قراردیے گئے 271 شامی سرکاری عہدیداروں کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے انہیں مکمل طور پر بلیک لسٹ کردیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بشارالاسد حکومت سے وابستہ ان سرکاری اہل کاروں پر تعزیرات عائد کی گئی ہیں جو خان شیخون میں رواں ماہ کے اوائل میں کیے گئے سارن گیس کے مبینہ حملے میں قصور وار قرار دیے گئے ہیں۔ مبینہ کیمیائی حملے کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 100 شہری انتہائی المناک موت سے دوچار ہوئے تھے جب کہ سیکڑوں زخمی اب بھی پڑوسی ممالک کے اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوشن نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ خان شیخون میں کیمیائی حملے کے ملزمان کے امریکا میں موجود تمام اثاثے منجمد کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ یہ 271 اہل کار شام کے سائنسی مطالعے اور تحقیقی مرکز کے ملازمین ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ چار اپریل کو خان شیخون کے قصبے پر ہونے والا حملہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت نے الشعیرات کے فضائی اڈے سے کیا تھا۔کیمیائی حملے کے نتیجے میں تڑپ کر ہلاک ہونے والے بچوں کی تصاویر دیکھ کرامریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فیصلہ کیا تھا کہ فوجی اقدام لازم ہو گیا ہے۔ کیمیائی حملے کے دو روز بعد امریکا نے شامی فضائی اڈے پر میزائل حملہ کیا۔
قبل ازیں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اپنے امریکی ہم منصب سے فون پر بات چیت میں شام میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کے لیے روس کے منصوبے کی حمایت نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اوران سے اس کا گلہ کیا ہے۔روسی وزارت خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے سرگئی لاروف کو فون کیا تو روسی وزیر خارجہ نے انہیں روس اور ایران کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) میں شام میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کے لیے پیش کردہ نئی تجویز کے بارے میں آگاہ کیا۔
لاروف نے اپنے ہم منصب سے امریکا کی جانب سے اس تجویز کی مخالفت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔اس تجویز میں ہیگ میں قائم تنظیم سے شام کے شمال مغربی صوبے ادلب کے قصبے خان شیخون پر4اپریل کو سارن گیس کے حملے کی تحقیقات کے لیے عالمی معائنہ کار بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔روسی وزارت کے مطابق لاروف اور ٹیلرسن نے او پی سی ڈبلیو کی نگرانی میں واقعے کی معروضی تحقیقات کے امکان سے اتفاق کیا۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے بھی بعد ازاں ٹیلی فون پر اس گفتگو کے بارے میں اپنا بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیلرسن اور لاروف نے دوطرفہ امور اور شام میں 4 اپریل کو کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی او پی سی ڈبلیو سے تحقیقات ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا ہے اور ٹیلرسن نے او پی سی ڈبلیو کے موجودہ میکانزم کے تحت ہی تحقیقات کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔واضح رہے کہ روس اور امریکا کے درمیان تعلقات میں یوکرین کے بحران اور شامی بحران کی وجہ سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
او پی سی ڈبلیو نے جمعرات کو کثرت رائے سے روس اور ایران کی جانب سے شام میں کیمیائی حملے کی نئی تحقیقات کے لیے تجویز کو مسترد کردیا تھا اور پہلے سے جاری تحقیقات ہی کی توثیق کی تھی۔
ان دونوں ملکوں نے اپنی تجویز کے مسودے میں اس امر کی تحقیقات پر زوردیا تھا کہ آیا شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا اور یہ ہتھیار واقعے کی جگہ پر کیسے گرائے گئے تھے۔ انھوں نے شام کے فضائی اڈے الشعیرات کے جائزے کے لیے بھی عالمی ادارے سے معائنہ کار بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ وہاں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے سے متعلق الزام کی تصدیق ہوسکے۔اس اڈے پر امریکی بحریہ نے 59 میزائل گرائے تھے۔
واضح رہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی پہلے شامی فوج کو اس کیمیائی حملے کا مورد الزام ٹھہرا چکے ہیں لیکن شامی حکومت اس حملے میں ملوّث ہونے کی تردید کرتی چلی آرہی ہے۔