میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسے انفرادیت پسندی کے خلاف اجتماعی اکٹھ کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے!

اسے انفرادیت پسندی کے خلاف اجتماعی اکٹھ کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے!

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۶ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

ب نقاب /ایم آر ملک
سوچ اور شعور

سرمایہ دارانہ آمریت کے خلاف یہ کسی زلزلے ،کسی آتش فشاں ،کسی ناگہانی آفت کی ابتدائی نشانیاں ہیں،ظلم ،جبر ،فسطائیت ،ناجائز مقدمات میں پابند سلاسل ہونے کے باوجود عوام قیدی نمبر 804کے ساتھ کھڑے ہیں ، یہ وطن عزیز کی تاریخ کے ایک بالکل نئے عہد کا اعلان ہے، اسے ہم عہد انقلاب کا عہد ہی کہہ سکتے ہیں جس میں ضرورت اپنا اظہار چاہ رہی ہے اور منزل کو رستے کی تلاش ہے ،تبدیلی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن کر سامنے آرہی ہے اور ایسا ہم اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ دو پارٹیوں کی موروثی سیاست،برسوں سے مسلط آمرانہ جمہوریت کے پاس اب مسائل کا حل نہیں رہا ،پسا ہوا طبقہ قدرے تلخ تجربے کے بعد یہ سمجھنے اور ماننے پر آمادہ ہوا ہے کہ اُس کو درپیش مصائب سے نجات کیلئے حقیقی قیادت وقت کا تقاضا بن رہی ہے ،ناگزیر ہو گئی ہے، ہمیں اس نظام کے رکھوالوں سے نجات حاصل کرنا ہے، غربت اور مایوسی کی ماری ہوئی نسل ہے جو ”منظم بدمعاش گروہوں ” کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے، امیر امیر تر غریب غریب تر کی تفریق کے باعث مجتمع ہو جانے والے اثرا ت نے عوامی مزاحمت کی صورت اختیار کر لی ،اقتدار کے شراکت دار بھی بادل نخواستہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ وطن عزیز مکمل بے چینی کی زد میں ہے اور حقیقت کو تسلیم کر لینا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اگر دوسرے نقطہ نظر سے جانچا جائے تو روشنیوں کے شہر میں پریس کلب سے مزار قائد تک گزشتہ روز نکلنے والے انسانوں کے انبوہ عظیم نے انقلاب کی ریہر سل مکمل کر لی ہے، جس نے عوام کو شعوری طور پر ایک نئی راہ دکھائی ہے کہ وہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ کے بغیر بھی کچھ کر سکتے ہیں ، ایک بار پھر وہ طبقہ نکلنے کو بے تاب ہے جو مشینوں کا لوہا پگھلانے والی بھٹیوں ،کوئلہ کانوں ،ڈیزل مٹی کے تیل اور موبل آئل کے بد بو دار ماحول میں کام کرتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا وہ ورکر جس کا خمیر بھٹو نظریات سے اُٹھا ،جو بھٹو کے نظریات پر کٹ مرنے کیلئے بے تاب تھا ،اُسے پارٹی سے والہانہ وابستگی اور وفا کی سزا پنجاب کے اُن حکمرانوں نے جن کا غرور اور رعونت اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے ، ماضی میں اور حالیہ اقتدار میں بد ترین نظر اندازی کی شکل میں دی، وہ ورکر جو اپنی پارٹی سے یہ اُمید اُستوار کئے ہوئے تھا کہ پنجاب میں گورنرشپ کے بعد اسے پذیرائی ملے گی ،اقتدار میں ریلیف ملے گا یہ اُمید دم توڑ گئی، جب وہ استحصال کار طبقہ کی پارٹی بن گئی ایک ایسی جماعت کو بچانے کیلئے وہ تمام حدیں عبور کر گئی جس کے دامن پر لیڈر شپ کے خون کے دھبے ہیں جس نے ضیا ء الحق کی سفاک اور درندہ صفت آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ،ضیاء الحق کی باقیات، اُس کی مارشلائی ٹیم اور اُس کے دلالوں نے جس نظریاتی ورکر کی پشت پر کوڑے مروانے کا فریضہ سر انجام دیا ،جس نے بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کیں پیپلز پارٹی کے اس مایوس اور بد دل ورکر کو عمران کی شکل میں ایک اُمید کی ایسی کرن نظر آئی ہے جو سچائی کے ساتھ اس بد دل ورکر کے حقیقی حریفوں کو للکار رہا ہے ،اس ورکر نے اپنے احساسات اور جذبات کا سارا وزن پاکستان تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا ،گو بلاول نے اس کی تلافی کرنا چاہی مگر سانپ گزرنے کے بعد لکیر کو پیٹنا عبث ہے، پیپلز پارٹی پنجاب کے نظریاتی ورکر کے اذہان میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ عمران خان ہی وطن عزیز کی جسلی نہیں حقیقی زنجیر کی قیادت کر رہا ہے۔
غلط حکمت عملی جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو بیڑیوں کے سواروں (پیپلز پارٹی والوں )نے کی اس منافقت کے ساتھ کہ پنجاب کا ووٹ بنک بھی ہماری دسترس میں رہے اور پارلیمنٹ میں بیٹھی اشرافیہ کے مفادات پر بھی زک نہ لگے ،مگر تیر کمان سے اور بات زبان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتے ،پنجاب میں ایک ورکر کو گورنر بنا کر جس کا کردار ایک مزاحمتی رہا ہے کو اختیارات نہ دیکر پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول ہو چکا ،کیونکہ ایک اکثریت نے بھانپ لیا کہ پیپلز پارٹی محض باری بچانے کیلئے خاموش ہے ، اُس وقت جب اس اکثریت سے تمام حاصلات علی الاعلان چھینی گئیں ، قومی اداروں کی نیلامی کا بازار اس ”فرینڈلی اقتدار ”کی سرپرستی میں سجایا گیا ،ایک ایسی عوامی پارٹی جو اس سرمایہ داری نظام کی عمومی شکست خوردگی کی مجسم تصویر بن گئی، محنت کشوں کا استحصال ہوتا رہا ،رجیم چینج سے لیکر موجودہ مبینہ اقتدار تک غربت اور ذلت کی کیفیات حاوی رہیں ،مائوں ،بہنوں کے سروں سے دوپٹے چھینے گئے ،ان پر جبرو تشدد کا ہر حربہ آزمایا گیا ،ایک بڑی پارٹی کے ورکرز پر جعلی مقدمات بنا کر ان کی ہمدردیاں چھیننے کی کوشش کی گئی ،بے روزگاری اور مہنگائی ،مزدوروں اور دہقانوں کی اذیت ناک مشقت اور استحصال کے”حل ”کو جعلی اور بد عنوان نظام جمہوریت کے غلاف میں مقید کر کے رکھ دیا گیا ،جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے قانون کی حکمرانی کو شرف قبولیت بخشا گیا ،شخصی بادشاہت نے اپنے سامراجی آقائوں کے رہن سہن کی بے ہودہ نقالی سے پورے معاشرے کو بد بودار کر دیا ۔الیکشن میںمستقبل کی بہتری کی اُمید اور خوشحالی کے وعدے کر کے عوامی اضطراب پر کاری ضرب لگائی، اُسی کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکی سوچ اور فکر کو ایک غلط فیصلے کے ذریعے قتل کراد یا گیا یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری کے تذبذب میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے،23مارچ کو ہونے والی تقریر اسی کا شاخسانہ تھا ، قیادت کی صفوں میں اتھل پتھل ہے، افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سیاسی غلطی کے ارتکاب کا پس منظر کیا ہے ؟
یہ سوال بھی اک عرصہ سے بھٹو کی جماعت کا پیچھا کر رہا ہے وہ پارٹی کہاں ہے ؟آج کی قیادت سیاسی اسباق کی انقلابی تشریح کرنے سے محروم ہے ،جب ایک انقلابی جدوجہد کیلئے مردو زن تاریخ کے معرکے کو سر کرنے نکلے ،راولپنڈی میں لیڈر شپ کی ہر کال کانتظار اور عوام کا اتنی بڑی تعداد میں نکلنا اس نظام کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے جس نے منافعوں کو چند افراد تک محدود اور نقصان کو اکثریت پر لاگو کر رکھا ہے اسے اُس جبر کا اظہار کہا جاسکتا ہے جو اپنے اندر ایک اُبلتا ہوا لاوا سموئے ہوئے ہے جو ایک ناقابل برداشت دبائو کے تحت اپنی مقداری تبدیلیوں سے معیاری تبدیلیوں کی جانب گامزن ہے عوام کی سوچ اور شعور ایک مختلف مقام پر کھڑے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں